پی ٹی آئی کی نرالی سیاست
پی ٹی آئی کی نرالی سیاست
جویریہ صدیق
پی ٹی آئی کے انقلاب کے نعرے سے سب سے زیادہ پاکستان کی نی نسل
متاثر ہوئی۔ 2013ء کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف نے انقلاب اور تبدیلی کا
نعرہ لگایا اور عوام نے قومی اسمبلی میں انہیں تیسری بڑی جماعت بنا ڈالا۔صوبہ خیبر
پختون خواہ میں حکومت بھی مل گی ۔پاکستان میں جب بھی عوام اپنے حلقے سے صوبائی یا
قومی اسمبلی کا نمائندہ چنتے ہیں تو ان کو امید ہوتی ہے کہ قانون سازی کے ساتھ
ساتھ ان کا منتخب کردہ نمائندہ علاقہ مکینوں کے ہر دکھ درد میں شریک ہوگا۔ان کے
مسائل سنے گا ،اس کے گھر دفتر کے دروازے ہر وقت شہریوں کے لیے کھلے ہوں گے۔
امید یہ ہی تھی کہ منتخب ارکان اپنے قائد عمران خان کی قیادت میں عوام کی خدمت میں مشغول ہوجائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا،اس جماعت نے جو دھاندلی اور چار حلقوں کا شور ڈالا اس کی گونج اب تک فضائوں میں ہے۔ چلیں ایک پل کو مان لیتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی تو کیا ان نشستوں پر بھی ہوئی جن پرپی ٹی آئی جیت کر آئی اگر نہیں تو کم ازکم انہیں ان ،شفاف ترین سیٹوں ، پر تو کام کرنا چاہیے تھا۔پرایسا نا ہوا ۔۔14 اگست 2014ء سے جو دھرنا شروع ہوا اس میں عوام کو ایک بار پھر نی امید دی گی کہ ہم انقلاب لائیں گے ،سب کچھ تبدیل ہوجائے گا، دھرنے سے کبھی یہ صدا لگتی کے کل انقلاب آرہا تو پرسوں کبھی یوٹیلٹی بل جلا دیے جاتے تو کبھی سول نافرمانی کی مہم شروع ہوجاتی یوں پی ٹی آئی کی ساری قیادت عملی طور پر اسلام آباد میں مصروف رہی اور ان کے حلقے پیچھے یتیم ہوگئے۔پھر تحریک انصاف نے سوائے خیبر پختون خواہ کے تمام اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دیا ۔ان استعفوں سے عوام کی وہ امید بھی چلی گی جو انہوں نے نئے چہروں کو منتخب کرکے فرسود نظام کو شکست دینے کے لیے دیکھ رکھی تھی۔
سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کی 4 نشستیں تھیں، لیکن مستعفی ہوکر ان لوگوں کو مایوس کیا جنہوں نے تبدیلی کو ووٹ دیا اور اب ان چاروں ارکان کے استعفے جنوری2015ء میں منظور ہوگئے، جس کے بعد سے تحریک انصاف کی نمائندگی سندھ اسمبلی سے ختم ہوگئی۔ثمر علی خان،حفیظ الرحمان،خرم شاہ زمان اور ڈاکٹر سیما چاروں ہی کراچی سے منتخب ہوئے تھے، یوں کراچی کے جن عوام نے تبدیلی کو ووٹ دیا تھا پی ٹی آئی کی بچگانہ پالیسیوںنے انہیں مایوس کیا۔ ان خالی ہونے والی نشستوں پر ایم کیو ایم اور پی پی نے ضمنی انتخابات کے لیے تیاریاں بھی شروع کردی ہے۔اب کیا پی ٹی آئی بھی ضمنی انتخابات میں حصہ لے گی ؟ اگر فرض کرلیں کہ پارٹی حصہ لیتی ہے یا کسی آزاد امیدوار کی حمایت کرتی ہے تو اب بھی انتخابات کا نظام الیکشن کمیشن تو وہ ہی ہے اب کیسے انہیں یقین ہوگا کہ دھاندلی نہیں ہوگی کیا اس جماعت نے جوکہ تبدیلی کا نعرہ لگاتی ہے شفاف الیکشن اور مضبوط الیکشن کمیشن کے لیے کوئی قانون سازی کی ؟ نہیں انہوں نے تو منتخب ہونے کے بعد سے زیادہ تر وقت سڑکوں پر تبدیلی کو تلاش کرتے ہوئے گزرا ہے۔تبدیلی سڑکوں پر دھرنوں یا نعروں سے نہیں بلکہ کام کرنے سے آتی ہے۔اب جب خالی کی جانے والی نشستوں پر دوبارہ انتخابات ہوں گے اور پی ٹی آئی دوبارہ حصہ لینے کا فیصلہ کرلیتی ہے تو کیا ان حلقوں کے عوام دوبارہ انہیں ووٹ دینے آئیں گے۔جنہوں نے پہلی بار انہیں ووٹ دیا اوریہ ہی ایم این ایز پارٹی کے فیصلے پر اپنی نشستوں سے استعفیٰ دے گئے اور ووٹر پیچھے اکیلے رہ گئے۔
اب اگر پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی سے بھی پی ٹی آئی کے استعفے منظور ہوگئے تو یہ قومی پارٹی سمٹ کر صرف ایک صوبے کی حد تک رہ جائے گی۔قومی اسمبلی میں اس وقت پی ٹی آئی کی 33 نشستیں ہیں اور پنجاب اسمبلی میں 30 نشستیں ہیں، اگر یہ تمام افراد بھی گھر واپس چلے گئے تو عوام کو جواب دہ کون ہے؟ اب تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے کہا کہ ان کی پہلی ترجیح اب خیبر پختون خواہ ہوگا اور ان کی پارٹی سینیٹ الیکشن میں بھی حصہ لے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے پارلیمان کے دو حصے ہیں ایک ایوان بالا ایک ایوان زیریں یعنی سینٹ اور قومی اسمبلی جب آپ کی جماعت قومی اسمبلی میں نہیں بیٹھنا چاہیتی تو وہ پھر سینیٹ میں ایسی کیا کشش ہے جو آپ کی پارٹی کو کھینچے چلی جارہی ہے۔
سینٹ کے52 ارکان گیارہ مارچ کو ریٹائر ہورہے ہیں اور خیبر پختون خواہ سمیت چاروں صوبوں سے گیارہ گیارہ ارکان منتخب ہوں گے اس کے ساتھ ساتھ دو اسلام آباد سے دو ،فاٹا کے چار اور دو اقلیتی ارکان شامل ہوں گے۔ عمران خان کی جماعت صوبہ سندھ صوبہ پنجاب اور قومی اسمبلی سے تو مستعفی ہیں اس لیے ان کی توجہ اب صرف خیبر پختون خواہ پر ہے۔خیبر پختون خواہ میں پندرہ سے سولہ ارکان کے ووٹ سے ایک نشت ملے گی اور تحریک انصاف آرام سے پانچ نشستیں لے جائے گی ۔
لیکن پی ٹی آئی کے ارکان پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی کا کیا قصور ہے ؟ ان سیاستدانوں کا کیا قصور جن کے دل میں عوام کی خدمت کا جذبہ ہے اور وہ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو اسمبلی سے باہر کیا ہوا ہے۔سب سے بڑھ کر ان لوگوں کا کیا قصور ہے جنہوں نے آپ کی پارٹی کو ووٹ دیا ۔عمران خان خود تو خیبر پختون خواہ پر توجہ مرکوز کردیں گے۔ وہاں سے منتخب پی ٹی آئی کے56 ایم این اے اتحادیوں کے ساتھ 2018ء تک مصروف عمل ہوجائیں گے۔پیچھے رہ جائیں گے وہ عوام جنہوں نے ملک بھر سے نمائندے منتخب کرکے قومی اسمبلی میں بھیجے اور جنہوں نے پنجاب سندھ سے تبدیلی کو ووٹ دیا تھا۔
تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں کچھ ارکان نے دبے دبے الفاظ میں کہا کہ اگر سینیٹ میں جانا ہے تو پھر اسمبلی میں بھی واپس جایا جائے۔ارکان نے یہ کہا کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔ لیکن عمران خان کے پاس ویٹو پاور ہے اور انہوں نے یہ ہی بات مناسب سمجھی کہ اسمبلی میں نہیں جانا لیکن سینٹ ضرور جانا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پارٹی میں کب تک اتحاد قائم رہے گا اور کب تک سب پارٹی ارکان اپنے چیرمین کی بات کا پاس رکھیں گے ۔جہاں تک بات ہے سینیٹ الیکشن کی اس حوالے سے بھی باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ جن افراد سے پہلے وعدے کیے گئے تھے، اب انہیں بھی ٹکٹ ملتا مشکل نظر آرہا ہے اس حوالے سے بھی پارٹی میں تناو اور کھینچا تانی کی کفیت محسوس کی جارہی ہے۔
پی ٹی آئی کو ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے اب دھرنے، احتجاج ، طعنوں اور الزامات کی سیاست سے نکل کر عوام کی خدمت کرنی ہوگی مہنگائی ، لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کے ستائے ہوئے عوام کے لیے فیس بک یا ٹویٹر کے اسٹیٹس یا ٹرینڈ سیٹ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا عوام کے آگے آپ جب سرخرو ہوں گے جب آپ عملی طور پر عوام کی خدمت کریں گے ۔جن افراد نے ووٹ دیے ہیں بہت دن تک وہ صرف نعروں پر اکتفا نہیں کریں گے انہیں اپنے اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام بھی چاہئیں۔سینٹ کو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی پر فوقیت دینا عوام کے ووٹوں کی توہین کرنا اور63 سیاستدانوں کو واپس گھر بٹھا دینا کہیں تحریک انصاف کی سیاسی خود کشی نا ثابت ہو ۔
امید یہ ہی تھی کہ منتخب ارکان اپنے قائد عمران خان کی قیادت میں عوام کی خدمت میں مشغول ہوجائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا،اس جماعت نے جو دھاندلی اور چار حلقوں کا شور ڈالا اس کی گونج اب تک فضائوں میں ہے۔ چلیں ایک پل کو مان لیتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی تو کیا ان نشستوں پر بھی ہوئی جن پرپی ٹی آئی جیت کر آئی اگر نہیں تو کم ازکم انہیں ان ،شفاف ترین سیٹوں ، پر تو کام کرنا چاہیے تھا۔پرایسا نا ہوا ۔۔14 اگست 2014ء سے جو دھرنا شروع ہوا اس میں عوام کو ایک بار پھر نی امید دی گی کہ ہم انقلاب لائیں گے ،سب کچھ تبدیل ہوجائے گا، دھرنے سے کبھی یہ صدا لگتی کے کل انقلاب آرہا تو پرسوں کبھی یوٹیلٹی بل جلا دیے جاتے تو کبھی سول نافرمانی کی مہم شروع ہوجاتی یوں پی ٹی آئی کی ساری قیادت عملی طور پر اسلام آباد میں مصروف رہی اور ان کے حلقے پیچھے یتیم ہوگئے۔پھر تحریک انصاف نے سوائے خیبر پختون خواہ کے تمام اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دیا ۔ان استعفوں سے عوام کی وہ امید بھی چلی گی جو انہوں نے نئے چہروں کو منتخب کرکے فرسود نظام کو شکست دینے کے لیے دیکھ رکھی تھی۔
سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کی 4 نشستیں تھیں، لیکن مستعفی ہوکر ان لوگوں کو مایوس کیا جنہوں نے تبدیلی کو ووٹ دیا اور اب ان چاروں ارکان کے استعفے جنوری2015ء میں منظور ہوگئے، جس کے بعد سے تحریک انصاف کی نمائندگی سندھ اسمبلی سے ختم ہوگئی۔ثمر علی خان،حفیظ الرحمان،خرم شاہ زمان اور ڈاکٹر سیما چاروں ہی کراچی سے منتخب ہوئے تھے، یوں کراچی کے جن عوام نے تبدیلی کو ووٹ دیا تھا پی ٹی آئی کی بچگانہ پالیسیوںنے انہیں مایوس کیا۔ ان خالی ہونے والی نشستوں پر ایم کیو ایم اور پی پی نے ضمنی انتخابات کے لیے تیاریاں بھی شروع کردی ہے۔اب کیا پی ٹی آئی بھی ضمنی انتخابات میں حصہ لے گی ؟ اگر فرض کرلیں کہ پارٹی حصہ لیتی ہے یا کسی آزاد امیدوار کی حمایت کرتی ہے تو اب بھی انتخابات کا نظام الیکشن کمیشن تو وہ ہی ہے اب کیسے انہیں یقین ہوگا کہ دھاندلی نہیں ہوگی کیا اس جماعت نے جوکہ تبدیلی کا نعرہ لگاتی ہے شفاف الیکشن اور مضبوط الیکشن کمیشن کے لیے کوئی قانون سازی کی ؟ نہیں انہوں نے تو منتخب ہونے کے بعد سے زیادہ تر وقت سڑکوں پر تبدیلی کو تلاش کرتے ہوئے گزرا ہے۔تبدیلی سڑکوں پر دھرنوں یا نعروں سے نہیں بلکہ کام کرنے سے آتی ہے۔اب جب خالی کی جانے والی نشستوں پر دوبارہ انتخابات ہوں گے اور پی ٹی آئی دوبارہ حصہ لینے کا فیصلہ کرلیتی ہے تو کیا ان حلقوں کے عوام دوبارہ انہیں ووٹ دینے آئیں گے۔جنہوں نے پہلی بار انہیں ووٹ دیا اوریہ ہی ایم این ایز پارٹی کے فیصلے پر اپنی نشستوں سے استعفیٰ دے گئے اور ووٹر پیچھے اکیلے رہ گئے۔
اب اگر پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی سے بھی پی ٹی آئی کے استعفے منظور ہوگئے تو یہ قومی پارٹی سمٹ کر صرف ایک صوبے کی حد تک رہ جائے گی۔قومی اسمبلی میں اس وقت پی ٹی آئی کی 33 نشستیں ہیں اور پنجاب اسمبلی میں 30 نشستیں ہیں، اگر یہ تمام افراد بھی گھر واپس چلے گئے تو عوام کو جواب دہ کون ہے؟ اب تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے کہا کہ ان کی پہلی ترجیح اب خیبر پختون خواہ ہوگا اور ان کی پارٹی سینیٹ الیکشن میں بھی حصہ لے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے پارلیمان کے دو حصے ہیں ایک ایوان بالا ایک ایوان زیریں یعنی سینٹ اور قومی اسمبلی جب آپ کی جماعت قومی اسمبلی میں نہیں بیٹھنا چاہیتی تو وہ پھر سینیٹ میں ایسی کیا کشش ہے جو آپ کی پارٹی کو کھینچے چلی جارہی ہے۔
سینٹ کے52 ارکان گیارہ مارچ کو ریٹائر ہورہے ہیں اور خیبر پختون خواہ سمیت چاروں صوبوں سے گیارہ گیارہ ارکان منتخب ہوں گے اس کے ساتھ ساتھ دو اسلام آباد سے دو ،فاٹا کے چار اور دو اقلیتی ارکان شامل ہوں گے۔ عمران خان کی جماعت صوبہ سندھ صوبہ پنجاب اور قومی اسمبلی سے تو مستعفی ہیں اس لیے ان کی توجہ اب صرف خیبر پختون خواہ پر ہے۔خیبر پختون خواہ میں پندرہ سے سولہ ارکان کے ووٹ سے ایک نشت ملے گی اور تحریک انصاف آرام سے پانچ نشستیں لے جائے گی ۔
لیکن پی ٹی آئی کے ارکان پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی کا کیا قصور ہے ؟ ان سیاستدانوں کا کیا قصور جن کے دل میں عوام کی خدمت کا جذبہ ہے اور وہ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو اسمبلی سے باہر کیا ہوا ہے۔سب سے بڑھ کر ان لوگوں کا کیا قصور ہے جنہوں نے آپ کی پارٹی کو ووٹ دیا ۔عمران خان خود تو خیبر پختون خواہ پر توجہ مرکوز کردیں گے۔ وہاں سے منتخب پی ٹی آئی کے56 ایم این اے اتحادیوں کے ساتھ 2018ء تک مصروف عمل ہوجائیں گے۔پیچھے رہ جائیں گے وہ عوام جنہوں نے ملک بھر سے نمائندے منتخب کرکے قومی اسمبلی میں بھیجے اور جنہوں نے پنجاب سندھ سے تبدیلی کو ووٹ دیا تھا۔
تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں کچھ ارکان نے دبے دبے الفاظ میں کہا کہ اگر سینیٹ میں جانا ہے تو پھر اسمبلی میں بھی واپس جایا جائے۔ارکان نے یہ کہا کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔ لیکن عمران خان کے پاس ویٹو پاور ہے اور انہوں نے یہ ہی بات مناسب سمجھی کہ اسمبلی میں نہیں جانا لیکن سینٹ ضرور جانا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پارٹی میں کب تک اتحاد قائم رہے گا اور کب تک سب پارٹی ارکان اپنے چیرمین کی بات کا پاس رکھیں گے ۔جہاں تک بات ہے سینیٹ الیکشن کی اس حوالے سے بھی باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ جن افراد سے پہلے وعدے کیے گئے تھے، اب انہیں بھی ٹکٹ ملتا مشکل نظر آرہا ہے اس حوالے سے بھی پارٹی میں تناو اور کھینچا تانی کی کفیت محسوس کی جارہی ہے۔
پی ٹی آئی کو ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے اب دھرنے، احتجاج ، طعنوں اور الزامات کی سیاست سے نکل کر عوام کی خدمت کرنی ہوگی مہنگائی ، لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کے ستائے ہوئے عوام کے لیے فیس بک یا ٹویٹر کے اسٹیٹس یا ٹرینڈ سیٹ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا عوام کے آگے آپ جب سرخرو ہوں گے جب آپ عملی طور پر عوام کی خدمت کریں گے ۔جن افراد نے ووٹ دیے ہیں بہت دن تک وہ صرف نعروں پر اکتفا نہیں کریں گے انہیں اپنے اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام بھی چاہئیں۔سینٹ کو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی پر فوقیت دینا عوام کے ووٹوں کی توہین کرنا اور63 سیاستدانوں کو واپس گھر بٹھا دینا کہیں تحریک انصاف کی سیاسی خود کشی نا ثابت ہو ۔
Javeria Siddique writes for Jang
Twitter @javerias
Pti should take care about it.
ReplyDelete