بچّے نا دیکھیں
بچّے نا دیکھیں
......نوید نسیم......
شاید یہ انسانی خصلت ہے کہ جس چیز سے اسے منع کیا جائے، ذہنی بے
چینی اور تجسس کی تسلی کے لیے انسان مذکورہ ممانعت کی طرف اپنی توّجہ ضرور مرکوز
کرتا ہے۔
ایسا ہی کچھ آئے روز ہونے والے دھماکوں کے بعد نیوز چینلز پر خُون آلود یا انسانی لاشوں کے مناظر نشر کرنے کے بعد ہوتا ہے۔ جب بچے ’’بچے نا دیکھیں‘‘ یا PG کا تنبیہی پیغام نیوز چینلز پر دیکھ کر ٹی وی مزید دلچسپی سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔
تقریباً تمام ہی نیوز چینلز پر دکھایا جانے والا یہ پیغام بُنیادی طور پر پی جی "پیرنٹل گائیڈینس" کا مُخفف ہے، جس کا اردو میں ترجمہ کر کے "بچّے نا دیکھیں" کا پیغام دکھایا جاتا ہے۔
مگر "پیرنٹل گائیڈینس" کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ بچّے نا دیکھیں۔ بلکہ اس کا مطلب ہے کہ "یہ نشریات عام دیکھنے کے لیے موزوں ہیں، مگر کچھ مناظر بچوں کے لیے نامناسب ہوسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ والدین خُود یہ طے کریں کہ یہ مناظر بچوں کو پریشان کرسکتے ہیں یا نہیں"۔
پی جی کی اصطلاح بُنیادی طور پر "برٹش بورڈ آف فلم کلاسیفیکیشن" کی طرف سے متعارف کروائی گئی۔
کسی بھی سانحے کے بعد نیوز چینلز پر یہ پیغام دیکھنے سے بچوں میں ٹی وی دیکھنے کی بے چینی مزید بڑھ جاتی ہے، جس کے بعد بچوں کی جانب سے سانحے سے متعلق سوالات کا نہ ختم ہونے والا ایسا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، جس کا جواب بعض اوقات والدین کے پاس بھی نہیں ہوتا، یا والدین کو یہ سمجھ نہیں آرہا ہوتا کہ وہ اپنے معصوم بچوں کو اس سانحے کی کیا تفصیلات بتائیں۔
بدقسمتی سے ہمارا میڈیا آج تک اپنے ناظرین کو ایسے حالات میں دکھائے جانے والے اِس تنبیہی پیغام کا مقصد نہیں سمجھا سکا، جس کی وجہ سے والدین بھی اس پیغام کی افادیت سمجھنے سے قاصر ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستانی میڈیا کا المیہ یہ بھی ہے کہ نیوز چینلز پر ہنگامی حالات میں ایسے مناظر دکھائے ہی کیوں جاتے ہیں جن پر یہ پیغام چسپاں کیا جانا ضروری ہو؟
اگر دیکھا جائے تو نیوز چینلز کا ضابطہ اخلاق تو کوئی بھی ایسے مناظر جس میں خُون یا لاشیں دکھائی دے رہی ہوں، دکھانے کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر پھر بھی ہمارے نیوز چینلز ضابطہ اخلاق بلکہ انسانی جذبات و احساسات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ریٹنگز حاصل کرنے کی خاطر ایسے مناظر نشر کرتے ہیں اور پی جی کا تنبیہی پیغام چسپاں کر کے اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں۔
کچھ اینکرز کی جانب سے تو حِفظِ ما تقدم کے طور پر دورانِ کمنٹری یہ باور کروایا جاتا ہے کے بچّے اور کمزور دل افراد یہ مناظر دیکھنے سے اجتناب کریں مگر پتہ نہیں کیوں یہ اینکرز اپنے نیوز روم میں موجود ایڈیٹرز کو یہ تنبیہ نہیں کرتے کے وہ عوام کو ایسیے مناطر دکھانے سے ہی پرہیز کریں۔ تاکہ یہ تنبیہی پیغام دکھانا ہی نا پڑے۔
ایک اور ڈِھنڈورا جو بریکنگ نیوز کی صورت میں اینکرز پیٹتے ہیں۔ وہ ہوتا ہے کے سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر ہم آپکو لائیو مناظر نہیں دکھا رہے۔ خوش قسمتی سے یہ واحد سبق ہے جو میڈیا نے اب تک سیکھا ہے، جس سے دہشتگردوں کو کسی قسم کی رہنمائی نہیں مل پاتی اور حملہ آوروں کے محاصرے میں پھنسی مظلوم عوام بھی محفوظ رہتی ہے۔
اگر بچے نیوز چینلزبھی نا دیکھیں تو پھر دیکھیں کیا؟
پاکستان میں یا تو بہتات نیوز چینلز کی ہے۔ یا پھر کچھ انٹرتینمنٹ چینلز کی۔ جن پر اکثر اوقات خاندانی سازشوں اور جائیداد کی خاطر جھگڑوں سے متعلق ڈرامے دکھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اِن انٹرٹینمنٹ چینلز پر ہمسایہ ممالک کے ڈرامے بھی نشر کئے جاتے ہیں۔ جن میں کرداروں کے کپڑے بعض اوقات اس قدر محدود ہوتے ہیں کے انھیں بذریعہ ٹیکنالوجی پورا کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں کرداروں کے درمیان بعض اوقات ایسے جُملے استعمال کئے جاتے ہیں۔ جن کی ڈبنگ اخلاقیات کی حدود میں قید رہتے ہوئے اصلیت سے ہٹ کر کی جاتی ہے۔
ویسے تو کیبل پر کچھ بچوں کے چینلز بھی دستیاب ہیں مگر بد قسمتی سے اُن میں سے بیشتر یا تو انڈین موّاد نشر کرتے ہیں یا پھر اُن پر انگریزی پروگراموں کی ہندی زبان میں ڈبنگ کر کے نشر کیا جاتا ہے۔ جن پر والدین یہ اعتراز کرتے ہیں کے اِن کے بچّے گھروں میں دورانِ گفتگو ہندی الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ جو کے ان کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔
ایسے حالات میں اگر بچّے نیوز چینلز بھی نا دیکھیں، انٹرٹینمنٹ چینلز بھی نادیکھیں۔ حتیٰ کے بچوں کے چینلز بھی نا دیکھیں تو بچے دیکھیں کیا؟
پاکستان میں بد قسمتی سے ابھی تک کوئی بھی میڈیا گروپ بچوں کا چینل شروع نہیں کرسکا، بلکہ موجودہ تمام چینلز پر بھی شاید ہی کسی چینل پر کوئی بچوں کا پروگرام نشر کیا جاتا ہو۔ اس کی وجہ شاید بچوں کے پروگراموں پر مطلوبہ ناظرین کی تعداد حاصل کرنے میں ناکامی ہے۔
ان وجوہات کی بِناپروالدین بہتر سمجھتے ہیں کے بچے انٹرنیٹ استعمال کریں تا کے اُن کے معصوم ذہن سانحہ پشاور جیسے ہولناک واقعات کے اثرات سے محفوظ رہیں۔ مگر انٹرنیٹ پر ٹھوس پابندیاں نا ہونے کے سبب اس کا استعمال بھی باعث نقصان ہو سکتا ہے۔
ایسا ہی کچھ آئے روز ہونے والے دھماکوں کے بعد نیوز چینلز پر خُون آلود یا انسانی لاشوں کے مناظر نشر کرنے کے بعد ہوتا ہے۔ جب بچے ’’بچے نا دیکھیں‘‘ یا PG کا تنبیہی پیغام نیوز چینلز پر دیکھ کر ٹی وی مزید دلچسپی سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔
تقریباً تمام ہی نیوز چینلز پر دکھایا جانے والا یہ پیغام بُنیادی طور پر پی جی "پیرنٹل گائیڈینس" کا مُخفف ہے، جس کا اردو میں ترجمہ کر کے "بچّے نا دیکھیں" کا پیغام دکھایا جاتا ہے۔
مگر "پیرنٹل گائیڈینس" کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ بچّے نا دیکھیں۔ بلکہ اس کا مطلب ہے کہ "یہ نشریات عام دیکھنے کے لیے موزوں ہیں، مگر کچھ مناظر بچوں کے لیے نامناسب ہوسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ والدین خُود یہ طے کریں کہ یہ مناظر بچوں کو پریشان کرسکتے ہیں یا نہیں"۔
پی جی کی اصطلاح بُنیادی طور پر "برٹش بورڈ آف فلم کلاسیفیکیشن" کی طرف سے متعارف کروائی گئی۔
کسی بھی سانحے کے بعد نیوز چینلز پر یہ پیغام دیکھنے سے بچوں میں ٹی وی دیکھنے کی بے چینی مزید بڑھ جاتی ہے، جس کے بعد بچوں کی جانب سے سانحے سے متعلق سوالات کا نہ ختم ہونے والا ایسا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، جس کا جواب بعض اوقات والدین کے پاس بھی نہیں ہوتا، یا والدین کو یہ سمجھ نہیں آرہا ہوتا کہ وہ اپنے معصوم بچوں کو اس سانحے کی کیا تفصیلات بتائیں۔
بدقسمتی سے ہمارا میڈیا آج تک اپنے ناظرین کو ایسے حالات میں دکھائے جانے والے اِس تنبیہی پیغام کا مقصد نہیں سمجھا سکا، جس کی وجہ سے والدین بھی اس پیغام کی افادیت سمجھنے سے قاصر ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستانی میڈیا کا المیہ یہ بھی ہے کہ نیوز چینلز پر ہنگامی حالات میں ایسے مناظر دکھائے ہی کیوں جاتے ہیں جن پر یہ پیغام چسپاں کیا جانا ضروری ہو؟
اگر دیکھا جائے تو نیوز چینلز کا ضابطہ اخلاق تو کوئی بھی ایسے مناظر جس میں خُون یا لاشیں دکھائی دے رہی ہوں، دکھانے کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر پھر بھی ہمارے نیوز چینلز ضابطہ اخلاق بلکہ انسانی جذبات و احساسات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ریٹنگز حاصل کرنے کی خاطر ایسے مناظر نشر کرتے ہیں اور پی جی کا تنبیہی پیغام چسپاں کر کے اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں۔
کچھ اینکرز کی جانب سے تو حِفظِ ما تقدم کے طور پر دورانِ کمنٹری یہ باور کروایا جاتا ہے کے بچّے اور کمزور دل افراد یہ مناظر دیکھنے سے اجتناب کریں مگر پتہ نہیں کیوں یہ اینکرز اپنے نیوز روم میں موجود ایڈیٹرز کو یہ تنبیہ نہیں کرتے کے وہ عوام کو ایسیے مناطر دکھانے سے ہی پرہیز کریں۔ تاکہ یہ تنبیہی پیغام دکھانا ہی نا پڑے۔
ایک اور ڈِھنڈورا جو بریکنگ نیوز کی صورت میں اینکرز پیٹتے ہیں۔ وہ ہوتا ہے کے سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر ہم آپکو لائیو مناظر نہیں دکھا رہے۔ خوش قسمتی سے یہ واحد سبق ہے جو میڈیا نے اب تک سیکھا ہے، جس سے دہشتگردوں کو کسی قسم کی رہنمائی نہیں مل پاتی اور حملہ آوروں کے محاصرے میں پھنسی مظلوم عوام بھی محفوظ رہتی ہے۔
اگر بچے نیوز چینلزبھی نا دیکھیں تو پھر دیکھیں کیا؟
پاکستان میں یا تو بہتات نیوز چینلز کی ہے۔ یا پھر کچھ انٹرتینمنٹ چینلز کی۔ جن پر اکثر اوقات خاندانی سازشوں اور جائیداد کی خاطر جھگڑوں سے متعلق ڈرامے دکھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اِن انٹرٹینمنٹ چینلز پر ہمسایہ ممالک کے ڈرامے بھی نشر کئے جاتے ہیں۔ جن میں کرداروں کے کپڑے بعض اوقات اس قدر محدود ہوتے ہیں کے انھیں بذریعہ ٹیکنالوجی پورا کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں کرداروں کے درمیان بعض اوقات ایسے جُملے استعمال کئے جاتے ہیں۔ جن کی ڈبنگ اخلاقیات کی حدود میں قید رہتے ہوئے اصلیت سے ہٹ کر کی جاتی ہے۔
ویسے تو کیبل پر کچھ بچوں کے چینلز بھی دستیاب ہیں مگر بد قسمتی سے اُن میں سے بیشتر یا تو انڈین موّاد نشر کرتے ہیں یا پھر اُن پر انگریزی پروگراموں کی ہندی زبان میں ڈبنگ کر کے نشر کیا جاتا ہے۔ جن پر والدین یہ اعتراز کرتے ہیں کے اِن کے بچّے گھروں میں دورانِ گفتگو ہندی الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ جو کے ان کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔
ایسے حالات میں اگر بچّے نیوز چینلز بھی نا دیکھیں، انٹرٹینمنٹ چینلز بھی نادیکھیں۔ حتیٰ کے بچوں کے چینلز بھی نا دیکھیں تو بچے دیکھیں کیا؟
پاکستان میں بد قسمتی سے ابھی تک کوئی بھی میڈیا گروپ بچوں کا چینل شروع نہیں کرسکا، بلکہ موجودہ تمام چینلز پر بھی شاید ہی کسی چینل پر کوئی بچوں کا پروگرام نشر کیا جاتا ہو۔ اس کی وجہ شاید بچوں کے پروگراموں پر مطلوبہ ناظرین کی تعداد حاصل کرنے میں ناکامی ہے۔
ان وجوہات کی بِناپروالدین بہتر سمجھتے ہیں کے بچے انٹرنیٹ استعمال کریں تا کے اُن کے معصوم ذہن سانحہ پشاور جیسے ہولناک واقعات کے اثرات سے محفوظ رہیں۔ مگر انٹرنیٹ پر ٹھوس پابندیاں نا ہونے کے سبب اس کا استعمال بھی باعث نقصان ہو سکتا ہے۔
Comments
Post a Comment