حریفوں کو پچھاڑنے والے ریسلرز حالات کے ہاتھوں چت

حریفوں کو پچھاڑنے والے ریسلرز حالات کے ہاتھوں چت

 

کامن ویلتھ گیمز میں میڈل جیتنے والے پاکستانی ریسلرز محمد انعام اور اظہر حسین کے فائل فوٹو
کراچی: پاکستانی ریسلرز محمد انعام اور اظہر حسین نے4 سال قبل دہلی میں منعقدہ کامن ویلتھ مقابلوں میں طلائی تمغے جیتے تھے، اب دونوں گلاسگو گیمز میں دوبارہ حصہ لینے والے ہیں، البتہ اس دوران ان کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، وہ آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں چار برس قبل تھے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دونوں پہلوان بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہیں، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے تنازع نے کھیلوں کو تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ ان دونوں کو چار سال میں کسی بھی بین الاقوامی مقابلے میں شرکت کا موقع نہیں مل سکا، دیگر ممالک کے ریسلرز ان مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت آگے نکل چکے۔

محمد انعام کو اس بات کا سخت افسوس تھا کہ کارکردگی میں بہتری لانے میں صرف کرنے کا وقت پی او اے تنازع کی نذر ہوگیا، انھوں نے کہا کہ دہلی میں گولڈ میڈل نے یقیناً مجھے گمنامی سے نکالا اور میری زندگی تبدیل ہوگئی لیکن اس کے بعد مجھے کسی بھی بین الاقوامی مقابلے میں شرکت کا موقع نہیں ملا،۔ اتنا عرصہ آپ کسی شیر کو بھی پنجرے میں بند کر دیں تو وہ بھی شکار کرنا بھول جاتا ہے،اس عرصے میں ریسلنگ کے قواعد و ضوابط میں نمایاں تبدیلی اور دیگر پہلوانوں کی کارکردگی میں کافی بہتری آ چکی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ریسلنگ کے ساتھ ویسے بھی سوتیلی ماں والا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

اس پہ ستم بالائے ستم یہ کہ پی او اے کے قضیے نے سب کچھ تباہ کر کے رکھ دیا، دہشت گردی نے پاکستان کو پہلے ہی بدنام کر رکھا ہے، اسپورٹس سے ملک کا وقار بحال کرنے میں مدد مل سکتی تھی لیکن اسے بھی تباہ برباد کردیا گیا۔ انعام نے کہا کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے تنازع نے ملک کو بدنامی کے سوا کچھ نہیں دیا،بین الاقوامی مقابلوں کے لیے جانے والی ٹیموں کو ایئرپورٹ سے واپس بھیج دیا گیا۔ محمد انعام کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے، پہلوانی انھیں ورثے میں ملی،ان کے والد اور دادا بھی پہلوان تھے تاہم انعام نے تعلیم کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اسے پہلوانی کے ساتھ جاری رکھا، پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کرنے کے بعد اب وہ یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب سے اسپورٹس سائنسز میں ایم ایس سی کر رہے ہیں۔ آرمی سے تعلق رکھنے والے اظہرحسین نے دہلی کے کامن ویلتھ گیمز میں ایک طلائی اور ایک چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔
چار سال قبل جب وہ ایونٹ کی تیاری میں مصروف تھے تو ان کی فیملی کو سیلاب کی وجہ سے مظفرگڑھ میں اپنا گھر چھوڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا تھا،آج اگرچہ انھیں اس طرح کی کوئی پریشانی لاحق نہیں لیکن بین الاقوامی مقابلوں میں عدم شرکت کا دکھ ضرور ہے، انھوں نے کہا کہ آپ کو کھیلنے اور تربیت کے بھرپور مواقع میسر نہ آئیں تو خلا سا محسوس ہونے لگتا ہے، اسی کے ساتھ اچھی کارکردگی کے لیے بہت دباؤ بھی رہتا ہے، گلاسگو گیمز کی تیاری کے لیے ہمیں صرف ڈیڑھ ماہ کا وقت ملا جو کافی نہیں ہے،البتہ میں کوشش کروں گا کہ ان کھیلوں میں پہلے جیسی کارکردگی دکھا سکوں۔ پاکستان ریسلنگ فیڈریشن کے کوچ محمد انور نے کامن ویلتھ گیمز کے برائے نام تربیتی کیمپ کی نگرانی کی ہے۔

انھوں نے کہاکہ حکومت کو بہت پہلے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا تنازع ختم کرا دینا چاہیے تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، یہ صورتحال اس کی کھیلوں سے عدم دلچسپی ظاہر کرتی ہے، انھوں نے مزید کہا کہ اب پانی سر سے گزر چکا، حکومت اگر پی او اے کے دونوں گروپس میں سمجھوتہ نہیں کرا سکتی تو کوئی تیسرا آدمی لے آئے، حالات نے کھلاڑیوں کو اس قدر مایوس کردیا ہے کہ اگر آج سب کچھ ٹھیک ہوجائے تب بھی پاکستانی اسپورٹس کو دوبارہ اوپر آنے میں 5،10 سال لگ جائیں گے۔

Comments

Popular posts from this blog

گجرات کے سیلاب میں سات شیر ہلاک

کیا آپ کو لفظ "گوگل "کا مطلب معلوم ہے ؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ قائد اعظم کے بیٹی دینا واڈیا اور پریٹی زنٹا کے درمیان کیا رشتہ ہے ؟ حیران کر دینے والی خبر آگئی