آپریشن ضرب عضب سے تحریک طالبان پاکستان کی صلاحیتیں مفلوج
آپریشن ضرب عضب سے تحریک طالبان پاکستان کی صلاحیتیں مفلوج
عسکریت پسندوں نے فوجی حملے کے خلاف جوابی کارروائی کی دھمکیاں دی ہیں مگر تجزیہ کاروں کے بقول یہ دھمکیاں ابھی تک محض گیدڑ بھبکیاں ہی ثابت ہوئی ہیں اور فوجی کارروائی کے نتیجے میں پاکستانی طالبان کا توازن بگڑ رہا ہے۔
اسلام آباد – شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کی کارروائی پر عسکریت
پسندوں کی جانب سے جوابی حملوں کی دھمکیاں محض گیدڑ بھبکیاں ثابت ہو رہی
ہیں۔
وزیرستان کے مقامی باشندے اور اسلام آباد میں قائم فاٹا تحقیق مرکز میں
تحقیقی تجزیہ کار کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے والے مہران وزیر نے کہا
کہ شمالی وزیرستان میں مسلسل گولہ باری کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کو منظم
ہونے اور جوابی حملے کرنے کے لیے بہت تھوڑا وقت ملا ہے۔
وزیر نے کہا کہ حکومت اس آپریشن میں عسکریت پسندوں کے خاتمے کی کارروائی مکمل کرنے میں انتہائی سنجیدہ ہے۔
مبصرین نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ اس کارروائی نے عسکریت
پسندوں کو بے خبری میں جا لیا اور فوج نے 3 سو 40 عسکریت پسندوں کو ہلاک کر
دیا اور شورش پسندوں کے کمان و کنٹرول مراکز تباہ کر دیے۔
پشاور میں مقیم سینئر صحافی محمد ریاض نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں
آپریشن ضرب عضب عسکریت پسندوں کے خلاف حکومت کی واحد کارروائی نہیں ہے مگر
یہ ایک مرکزی نکتہ ضرور ہے کیونکہ اس علاقے کو عسکریت پسندوں کا گڑھ سمجھا
جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ تر عسکریت پسند شمالی وزیرستان میں ہی جمع ہوتے
ہیں کیونکہ یہ مقامی اور غیر ملکی عسکریت پسند گروپوں کا صدر مقام ہے۔
امکانی جوابی حملوں پر تشویش
کارروائی نے متوقع طور پر عسکریت پسندوں کے رونگٹے کھڑے کر دیے ہیں اور
انہوں نے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی ہیں مگر ابھی تک یہ محض باتیں ہی ثابت
ہوئی ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے 23 جون کو بذریعہ ای
میل سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا تھا کہ اس فوجی آپریشن میں قبائلی
مسلمانوں کے جان و مال کے نقصان کی ذمہ دار نواز شریف حکومت ہے۔ اس نے
اسلام آباد اور لاہور کو جلانے کی دھمکی بھی دی تھی۔
ریاض نے کہا کہ حکومت تحریک طالبان پاکستان کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے لے
رہی ہے۔ اس طرح کے پیغامات کے ردعمل میں حکام نے تحفظ کے اضافی اقدامات
اٹھائے ہیں اور فوج کو ہدایت کی ہے کہ وہ بڑے شہروں کی سڑکوں پر گشت کرے۔
بعض افراد کا کہنا ہے کہ اس طرح کی گفتگو کو روکنے میں جس چیز نے مدد کی
ہے وہ فوجی کارروائی میں تیزی آنے سے قبل پیش بندی کے طور پر کیے گئے تحفظ
کے اقدامات ہیں۔
اسلام آباد کے ایک صحافی انور علی بنگش نے کہا کہ فوجی آپریشن شروع ہونے
سے قبل اس قسم کی اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ سول حکام اسلام آباد اور
دیگر بڑے شہروں کو فوج کے حوالے کرنے والے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے انٹیلیجنس کی بنیاد پر تلاشی کی کارروائیاں
کیں اور 15 جون کو آپریشن ضرب عضب شروع ہونے سے پہلے پشاور، اسلام آباد اور
لاہور میں بڑی تعداد میں مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا۔
خفیہ گروپوں کی حیثیت
عسکری تجزیہ کار بریگیڈیر نذیر سعید نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب نے بہت سے
مبصرین کو حیران کر دیا جن کا خیال تھا کہ پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد
نواز شریف شاید اس طرح کی کارروائی کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کے جوابی
حملوں کا خطرہ مول لینا پسند نہ کریں۔ تاہم نذیر کو شبہ ہے کہ عسکریت پسند
بعد میں جوابی حملے کریں گے۔
نذیر نے کہا کہ میرے خیال میں عسکریت پسند موقع کی تلاش میں ہیں۔ جونہی
حکومت کچھ وقفہ کرے گی، وہ وار کریں گے۔ خفیہ گروپ اپنی جگہ موجود ہیں جو
کسی بھی مناسب موقع کا انتظار کر رہے ہیں۔
تاہم بنگش نے کہا کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے کوئی بڑی کارروائی خارج از امکان ہے۔
حملے میں کوئی رعایت نہیں
دریں اثناء عسکریت پسندوں کے تتر بتر ہونے کے دوران حکومت حالات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
کراچی میں مقیم سیاسی کارکن اسماعیل محسود نے کہا کہ سرکاری فورسز
وزیرستان کی وادیوں میں دہشت گردوں کو بمباری کا نشانہ بنانے کے علاوہ
کراچی جیسے بڑے شہروں کی گلیوں میں بھی ان کا تعاقب کر رہی ہیں جہاں سلامتی
کی کارروائیوں میں عسکریت پسندوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔
محسود نے کہا کہ کراچی ایئر پورٹ پر حملے کے بعد حکومت نے اپنی پوری توجہ عسکریت پسندوں کی جانب موڑ دی ہے اور اس نے کسی رعایت کا مظاہرہ نہیں کیا۔
Comments
Post a Comment