مذہبی مقامات کو تباہ کرنے پر الداعش کی مذمت
مذہبی مقامات کو تباہ کرنے پر الداعش کی مذمت
پاکستانی علماء اور مذہبی ماہرین کا کہنا ہے کہ الدولة الاسلامية في العراق والشام کی جانب سے مقدس مقامات کے خلاف حملے اسلام کے تصور کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور وہ درحقیقت مذہبی اصولوں سے متصادم ہیں۔
عدیل سعید
2014-07-14
2014-07-14
پشاور – پاکستانی علماء اور مذہبی ماہرین نے الدولة الاسلامية في العراق
والشام کے ہاتھوں مزاروں اور مساجد سمیت مقدس مقامات کی تباہی کی مذمت
کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے اقدامات غیر اسلامی ہیں۔
پشاور یونیورسٹی میں شیخ زید اسلامی مرکز کے سابق ڈائریکٹر اور شعبہ
مطالعہ سیرت کے چیئرمین ڈاکٹر غفور احمد نے کہا کہ اسلام مقدس مقامات کی بے
حرمتی کی اجازت نہیں دیتا، چاہے وہ دیگر مذاہب کے ہی کیوں نہ ہوں۔
عراق میں اپریل 2013 میں قائم ہونے والی جہادی تنظیم الداعش صوبہ نینوا
کے عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں مساجد اور مسلمانوں کے مزارات کو
منہدم کر رہی ہے۔
غفور نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ عراق اور شام
میں الداعش کے اراکین کے ہاتھوں انتہائی سفاکی سے مزاروں کو بم دھماکوں سے
اڑاتے ہوئے دیکھنا انتہائی تکلیف دہ منظر ہے۔ اسلام تو امن، محبت، بھائی
چارے اور رواداری کا پیغام دیتا ہے اور یہ عمل ہمارے مذہب کے بنیادی اصولوں
کے مکمل خلاف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے مذہبی جنونی بیرونی دنیا کو اسلام کی
غلط تصویر پیش کر رہے ہیں اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے شرمندگی کا
باعث بن رہے ہیں۔
بم دھماکوں سے اسلام کے تصور کو نقصان
الداعش نے بغداد میں غوث الاعظم عبد القادر جیلانی کے مزار کو منہدم
کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور اس کے بعد وہ نجف اور کربلا کی جانب پیش قدمی
کر کے وہاں امام علی رضی اللہ تعالٰی عنہہ اور امام حسین رضی اللہ تعالٰی
عنہہ کے روضوں کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
پشاور کے عارف حسینی مدرسہ کے متولی علامہ عابد شاکری نے کہا کہ الداعش
کی ان کارروائیوں کو کسی طور اسلام کی خدمت قرار نہیں دیا جا سکتا، اس کی
بجائے اس سے ہمارے مذہب کا تصور داغدار ہو گا اور امت مسلمہ میں پھوٹ پڑ
جائے گی حالانکہ اس وقت اسے اتحاد اور ہم آہنگی کی سخت ضرورت ہے۔
جمعیت علماء اسلام سمیع کے مرکزی نائب امیر مولانا حامد الحق نے کہا کہ
اس طرح کی کارروائیاں اسلام اور اس کے ماننے والوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر الداعش کے اراکین حقیقی مسلمان ہوتے تو وہ مختلف
عقائد کے ماننے والوں کا احترام کرتے۔ دوسروں پر مذہبی عقائد زبردستی مسلط
کرنے سے لوگ اسلام کے قریب آنے کی بجائے اس سے دور بھاگتے ہیں۔
پاکستان کی ایک مذہبی تنظیم مجلس وحدت المسلمین کے ترجمان ارشاد آغا نے
کہا کہ الداعش کا سب سے ہولناک جرم مارچ میں شامی شہر الرقہ میں حضرت اویس
القرنی رضی اللہ تعالٰی عنہہ کے مزار کو بم دھماکے سے اڑانا تھا۔ اس سے
تمام مسلمانوں کے دلوں کو سخت صدمہ پہنچا۔
الداعش کا مقابلہ کرنے کے اقدامات
جہادی گروپ کی کارروائیوں سے تنگ آ کر بعض مسلمان اس کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں۔
ارشاد نے کہا کہ ہزاروں غیر ملکی مسلمانوں نے رضا کارانہ طور پر عراق
جانے کی درخواست کی ہے تا کہ وہاں موجود مقدس مقامات کو بنیاد پرست الداعش
کے عسکریت پسندوں کی یورش سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے مسلم رہنماؤں پر زور
دیا کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کر کے الداعش کے شدت پسندوں کو امت مسلمہ
میں نفاق کا سبب بننے سے روکیں کیونکہ وہ عقیدے اور مذہب پر عمل کے نام پر
اسے مزید منقسم کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ الداعش کی جانب سے اسلام کے اصولوں کو مسلسل نظر
انداز کرنے سے فرقہ واریت کی آگ بھڑکے گی اور مسلمانوں میں آپس کی لڑائی
اور خونریزی میں اضافہ ہو گا۔
ارشاد نے کہا کہ ان کا گروپ رمضان کے آخری جمعہ (25 جولائی) کو پاکستان
بھر میں احتجاجی مظاہرے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جن میں الداعش کی
کارروائیوں کی مذمت کی جائے گی۔
Comments
Post a Comment