ایک دولہا اور 10 لاکھ باراتی
1دولہا
اور 10 لاکھ باراتی . . . . . . . . . .. . . . . (نوید
نسیم)
رمضان کا بابرکت مہینہ گزرنے کے
بعدآخر کار ماہِ اگست شروع ہو گیا ہے جس میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان 14
اگست کو 10 لاکھ لوگوں کی بارات لے کر لاہور سے اسلام آباد روانہ ہوں گے جبکہ
حکومت کی جانب سے باراتیوں اور دلہا کے استقبال کیلئے اسلام آباد میں آئین کا
آرٹیکل 245نافذ کرتے ہوئے یکم اگست سےہی فوج کو لانگ مارچ کے استقبال کیلئے
تعینات کردیا گیا ہے۔
2013 میں حکومت اور اپوزیشن کے رشتے میں بندھنے کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے اس جمہوری رشتے کو خوش اسلوبی سے نبھانے کے لئے شرط رکھی گئی تھی کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت تحریک انصاف کے مطلوبہ چار حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق کروائے۔
تاہم حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کے اس مطالبے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا جس کے بعد تحریک انصاف نے مطالبہ کیا کہ 4نہیں بلکہ 35حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق کروائی جائے۔ بعد ازاں یہ مطالبہ پورے انتخابات کے آڈٹ میں بدل گیا اور خان صاحب کی جانب سے یوم آزادی پر لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کے وہ ہر صورت لانگ مارچ کریں گے اور اسلام آباد میں تب تک دھرنا دیئے بیٹھے رہیں گے جب تک دھاندلی کے ذریعے منتخب ہونے والی حکومت کو گھر نہیں بھیجا جاتا۔
تحریک انصاف کی جانب سے لانگ مارچ کا مقصد پارلیمنٹ میں موجود جمہوریت کو نقصان پہنچانا ہے، جس کو خان صاحب عام انتخابات میں حاصل کرنے میں ناکام رہے اور پھر حکومت اور اپوزیشن کے جمہوری رشتے کو نبھانے کے لئے شرائط رکھنا شروع کر دیں۔
تحریک انصاف کی جانب سے جمہوریت کو درپیش خطرات کو ہی مدّنظر رکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں سیکیورٹی کے عذراور آئین کے آرٹیکل 245 کا سہارا لیتے ہوئے یکم اگست سے ہی فوج طلب کر لی گئی ہے۔ جس پر تحریک انصاف کا کہنا ہے کے حکومت نے فوج تحریک انصاف کے جیالوں کو ڈرانے دھمکانے کے لئے تعینات کی ہے۔
اس کے علاوہ تحریک انصاف موجودہ انتخابی سسٹم میں بھی اصلاحات چاہتی ہے اور حکومت نے تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر ہی سینیٹر اسحاق ڈار کی زیر نگرانی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ جس کے بارے میں تحریک انصاف کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کے حکومت انتخابی اصلاحات کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے۔
حکومت کی جانب سے سربراہ عمران خان کو متعدد بار لانگ مارچ کے اعلان کو واپس لینے کے لئے مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے۔ مگر تحریک انصاف کے سربراہ نواز شریف کی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے سے انکاری ہیں اور لانگ مارچ کے لئے باضد ہیں۔
تحریک انصاف کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے عمران خان سے رابطے کی کوششیں کی تھی، مگر خان صاحب کی جانب سے انکار کردیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کے اس کے علاوہ حکومت کے ساتھ اور کوئی بھی رابطہ نہیں ہوا ہے۔
خان صاحب کی جانب سے دیئے گئے بیانات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ دیکھا گیا ہے کے خان صاحب نواز شریف کے ساتھ کسی بھی صورت مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ خان صاحب کی جانب سے چوہدری نثار کے لئے بھی تعریفی کلمات سامنے آئے ہیں۔
عید کے بعد شروع ہونے والے سیاسی گرم ماحول میں خان صاحب کس کروٹ بیٹھتے ہیں، اس کا پتہ تو کچھ دنوں میں چلے گا۔ مگر خان صاحب کے بیانات کو دیکھتے ہوئے اگر خان صاحب نواز شریف کے بغیر مسلم لیگ نواز کو دیکھ رہے ہیں تو شاید یہ اُن کی خوش فہمی ہوگی۔
اس کے علاوہ خان صاحب کی جانب سے میاں شہباز شریف کے کاموں کو سراہاتے دیکھا گیا ہے اور ہو سکتا ہے کے خان صاحب نواز شریف کی جگہ شہباز شریف کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہوں۔ مگر اُن کی یہ سوچ سیاسی مذاق سے زیادہ کچھ بھی نہیں کیونکہ میاں نواز شریف کے بغیر ووٹ دینے والی عوام کو مسلم لیگ نواز کی حکومت کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہوگی۔
اس ساری گمبھیر صورتحال کو دیکھ کر کوئی بھی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ خان صاحب اپنے بدلتے مطالبات کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں۔ شاید وہ انتخابی نتائج سے اتنے دلبرداشتہ ہوئے ہیں کے ایک بار پھر انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں۔ جس کے لئے لازمی ہے کے وہ اس جمہوری حکومت کو گھر بھیجیں اور مڈ ٹرم انتخابات کروائے جائیں۔
اس مقصد کے لئے خان صاحب کو کوئی بھی آئینی طریقہ سمجھ نہیں آرہا۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ فوج مارشل لا بھی نہ لگائے۔ مسلم لیگ نواز کی پارلیمنٹ میں اکثریت ہونے کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد بھی نہیں لائی جاسکتی۔ صدر کے اسمبلی توڑنے کے اختیارات واپس لے لئے گئے ہیں۔ چنانچہ ایسی صورتحال میں خان صاحب نے شش و پنج میں مبتلا ہوکر لانگ مارچ کا اعلان کردیا ہے۔
اس کے علاوہ کچھ دن پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا کی جانب سے بیان دیا گیا تھا کہ امریکا اور سابق آرمی چیف پرویز کیانی کی جانب سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کے فوج 3انتخابات تک مارشل لا کے ذریعے اقتدار پر قبضہ نہیں کرے گی۔
امریکا اور سابق آرمی چیف کی جانب سے یہ ضمانت ہی شاید خان صاحب کو اس غیر آئینی اقدام پر مجبور کر رہی ہے کہ کیونکہ اب فوجی مارشل لا کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹا نہیں جا سکتا۔ لہٰذا اب خان صاحب پارلیمنٹ کے باہر 10 لاکھ لوگوں کے ساتھ دھرنا دے کر حکومت الٹانے کی ایک نئی مثال قائم کرنا چاہتے ہیں اور اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو نقصان صرف اور صرف جمہوریت کا ہوگا۔جس پر ماضی میں فوجی ڈکٹیٹر اور اب خان صاحب حملہ آور ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر حکومت تحریک انصاف کے مطالبے پر انتخابات کے بعد ہی ووٹوں کی تصدیق کروادیتی اور خان صاحب کے کروٹ کروٹ بدلتے مطالبے مڈ ٹرم انتخابات کے مطالبے میں نہ بدلتے۔
کاش حکومت خان صاحب کی پارلیمنٹ میں پہلی تقریر جس میں انہوں نے انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے فوراً بعد ہی حکومت انتخابی اصلاحاتی کمیٹی تشکیل دے دیتی۔
مگر انتخابات میں جیت کے نشے نے حکومت کو کچھ بھی ایسا نہ کرنے دیا اور آخر کار ایک دلھے کی 10لاکھ لوگوں کی بارات کو نمٹنے کیلئے حکومت کو اسلام آباد میں فوج بلانا پڑی۔
2013 میں حکومت اور اپوزیشن کے رشتے میں بندھنے کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے اس جمہوری رشتے کو خوش اسلوبی سے نبھانے کے لئے شرط رکھی گئی تھی کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت تحریک انصاف کے مطلوبہ چار حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق کروائے۔
تاہم حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کے اس مطالبے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا جس کے بعد تحریک انصاف نے مطالبہ کیا کہ 4نہیں بلکہ 35حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق کروائی جائے۔ بعد ازاں یہ مطالبہ پورے انتخابات کے آڈٹ میں بدل گیا اور خان صاحب کی جانب سے یوم آزادی پر لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کے وہ ہر صورت لانگ مارچ کریں گے اور اسلام آباد میں تب تک دھرنا دیئے بیٹھے رہیں گے جب تک دھاندلی کے ذریعے منتخب ہونے والی حکومت کو گھر نہیں بھیجا جاتا۔
تحریک انصاف کی جانب سے لانگ مارچ کا مقصد پارلیمنٹ میں موجود جمہوریت کو نقصان پہنچانا ہے، جس کو خان صاحب عام انتخابات میں حاصل کرنے میں ناکام رہے اور پھر حکومت اور اپوزیشن کے جمہوری رشتے کو نبھانے کے لئے شرائط رکھنا شروع کر دیں۔
تحریک انصاف کی جانب سے جمہوریت کو درپیش خطرات کو ہی مدّنظر رکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں سیکیورٹی کے عذراور آئین کے آرٹیکل 245 کا سہارا لیتے ہوئے یکم اگست سے ہی فوج طلب کر لی گئی ہے۔ جس پر تحریک انصاف کا کہنا ہے کے حکومت نے فوج تحریک انصاف کے جیالوں کو ڈرانے دھمکانے کے لئے تعینات کی ہے۔
اس کے علاوہ تحریک انصاف موجودہ انتخابی سسٹم میں بھی اصلاحات چاہتی ہے اور حکومت نے تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر ہی سینیٹر اسحاق ڈار کی زیر نگرانی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ جس کے بارے میں تحریک انصاف کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کے حکومت انتخابی اصلاحات کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے۔
حکومت کی جانب سے سربراہ عمران خان کو متعدد بار لانگ مارچ کے اعلان کو واپس لینے کے لئے مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے۔ مگر تحریک انصاف کے سربراہ نواز شریف کی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے سے انکاری ہیں اور لانگ مارچ کے لئے باضد ہیں۔
تحریک انصاف کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے عمران خان سے رابطے کی کوششیں کی تھی، مگر خان صاحب کی جانب سے انکار کردیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کے اس کے علاوہ حکومت کے ساتھ اور کوئی بھی رابطہ نہیں ہوا ہے۔
خان صاحب کی جانب سے دیئے گئے بیانات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ دیکھا گیا ہے کے خان صاحب نواز شریف کے ساتھ کسی بھی صورت مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ خان صاحب کی جانب سے چوہدری نثار کے لئے بھی تعریفی کلمات سامنے آئے ہیں۔
عید کے بعد شروع ہونے والے سیاسی گرم ماحول میں خان صاحب کس کروٹ بیٹھتے ہیں، اس کا پتہ تو کچھ دنوں میں چلے گا۔ مگر خان صاحب کے بیانات کو دیکھتے ہوئے اگر خان صاحب نواز شریف کے بغیر مسلم لیگ نواز کو دیکھ رہے ہیں تو شاید یہ اُن کی خوش فہمی ہوگی۔
اس کے علاوہ خان صاحب کی جانب سے میاں شہباز شریف کے کاموں کو سراہاتے دیکھا گیا ہے اور ہو سکتا ہے کے خان صاحب نواز شریف کی جگہ شہباز شریف کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہوں۔ مگر اُن کی یہ سوچ سیاسی مذاق سے زیادہ کچھ بھی نہیں کیونکہ میاں نواز شریف کے بغیر ووٹ دینے والی عوام کو مسلم لیگ نواز کی حکومت کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہوگی۔
اس ساری گمبھیر صورتحال کو دیکھ کر کوئی بھی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ خان صاحب اپنے بدلتے مطالبات کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں۔ شاید وہ انتخابی نتائج سے اتنے دلبرداشتہ ہوئے ہیں کے ایک بار پھر انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں۔ جس کے لئے لازمی ہے کے وہ اس جمہوری حکومت کو گھر بھیجیں اور مڈ ٹرم انتخابات کروائے جائیں۔
اس مقصد کے لئے خان صاحب کو کوئی بھی آئینی طریقہ سمجھ نہیں آرہا۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ فوج مارشل لا بھی نہ لگائے۔ مسلم لیگ نواز کی پارلیمنٹ میں اکثریت ہونے کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد بھی نہیں لائی جاسکتی۔ صدر کے اسمبلی توڑنے کے اختیارات واپس لے لئے گئے ہیں۔ چنانچہ ایسی صورتحال میں خان صاحب نے شش و پنج میں مبتلا ہوکر لانگ مارچ کا اعلان کردیا ہے۔
اس کے علاوہ کچھ دن پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا کی جانب سے بیان دیا گیا تھا کہ امریکا اور سابق آرمی چیف پرویز کیانی کی جانب سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کے فوج 3انتخابات تک مارشل لا کے ذریعے اقتدار پر قبضہ نہیں کرے گی۔
امریکا اور سابق آرمی چیف کی جانب سے یہ ضمانت ہی شاید خان صاحب کو اس غیر آئینی اقدام پر مجبور کر رہی ہے کہ کیونکہ اب فوجی مارشل لا کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹا نہیں جا سکتا۔ لہٰذا اب خان صاحب پارلیمنٹ کے باہر 10 لاکھ لوگوں کے ساتھ دھرنا دے کر حکومت الٹانے کی ایک نئی مثال قائم کرنا چاہتے ہیں اور اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو نقصان صرف اور صرف جمہوریت کا ہوگا۔جس پر ماضی میں فوجی ڈکٹیٹر اور اب خان صاحب حملہ آور ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر حکومت تحریک انصاف کے مطالبے پر انتخابات کے بعد ہی ووٹوں کی تصدیق کروادیتی اور خان صاحب کے کروٹ کروٹ بدلتے مطالبے مڈ ٹرم انتخابات کے مطالبے میں نہ بدلتے۔
کاش حکومت خان صاحب کی پارلیمنٹ میں پہلی تقریر جس میں انہوں نے انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے فوراً بعد ہی حکومت انتخابی اصلاحاتی کمیٹی تشکیل دے دیتی۔
مگر انتخابات میں جیت کے نشے نے حکومت کو کچھ بھی ایسا نہ کرنے دیا اور آخر کار ایک دلھے کی 10لاکھ لوگوں کی بارات کو نمٹنے کیلئے حکومت کو اسلام آباد میں فوج بلانا پڑی۔
Comments
Post a Comment