بغیر پیسے کے زندگی گزارنے والا عجیب شخص
بغیر
پیسے کے زندگی گزارنے والا عجیب شخص
ڈبلن (نیوزڈیسک)
آئرلینڈ میں ایک ایسا شخص ہے، جو پیسہ کے بغیر زندگی گزار رہا ہے۔ مارک بائل کے
پاس کوئی بینک بیلنس ہے نہ آمدنی کا ذریعہ اور اسی وجہ سے وہ کسی قسم کا خرچہ بھی
نہیں کرتا۔ کھانے پینے، نہانے، آنے جانے اور رہائش کے لئے اسے پیسے کی بالکل بھی
ضرورت نہیں پڑتی، ایسا کس طرح ممکن ہے، آئیں اسی کی زبان جانتے ہیں۔ مارک بائل کا
کہنا ہے کہ ” 7سال قبل جب میں بزنس اینڈ اکنامکس ڈگری کے آخری سال میں تھا، مجھے
کوئی کہتا کہ وہ بغیر پیسے کے زندہ ہے، تو میں کبھی بھی یقین نہیں کرتا۔ میں نے
تعلیم مکمل کرنے کے بعد اچھی ملازمت اختیار کی اور اس سے ملنے والی آمدن سے جو
چاہتا خرید سکتا تھا۔ لیکن گزشتہ 15 ماہ سے میرے پاس ایک بھی پیسہ نہ تھا اور نہ ہی
میں اسے خرچ کر سکا۔ میں اپنی تمام انسانی ضروریات مفت پوری کرتا ہوں۔ میری زندگی
میں یہ تبدیلی اس وقت آئی جب ایک شام کشتی پر بیٹھے میں اپنے دوست سے فلسفیانہ
گفتگو کر رہا تھا۔ اس دوران مہاتما گاندھی کے ایک قول ” جو تم چاہتے ہو اس کے مطابق دنیا کو
تبدیل کر لو“ سے میں بہت متاثر ہوا، لیکن مجھے سمجھ نہ آئی کہ مجھے کس تبدیلی کی ضرورت
ہے۔ اس وقت ہم نے آلودگی، آبادی، ماحولیات سمیت دنیا کے مختلف مسائل پر سیر حاصل
گفتگو کی تو مجھے احساس ہوا کہ یہ مسائل ایسے نہیں کہ انہیں نظرانداز کر دیا جائے
اور ان سب کی جڑ ہماری خریداری کا طریقہ کار ہے،کیوں کہ دکاندار اور صارف میں علیحدگی
کی درجہ بندی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ میرے خیال میں اس علیحدگی کا ذمہ دار پیسہ ہے
اور خصوصاً جب یہ پوری دنیا میں موجود ہو۔ مثال کے طور پر اگر ہم اپنی خوراک خود
اگاتے ہیں، تو پھر ہم اسے یوں ضائع نہیں کریں گے جیسے اب کر رہے ہیں۔ لہذا دنیا
میں بدلاﺅ کے لئے میں نے یہ طرز
زندگی اختیار کیا ہے۔ پہلے دن میں نے تین بار کھانا کھایا اور یہ کھانا ڈیڑھ سو افراد
کا بچایا ہوا تھا، لیکن میں نے اس ضائع شدہ کھانے پر انحصار نہیں کیا بلکہ خود
فصلیں اگانے لگا اور پورے سال میں پیداوار کا صرف 5 فیصد ہی میں نے ضائع کیا۔ میں
باہر کھانا پکاتا ہوں، لکڑیوں اور تنکوں سے بنے گھر کو گرم رکھنے کے لئے لکڑیاں
جلاتا ہوں، نہر میں نہاتا ہوں، دانت صاف کرنے کے لئے درخت کی شاخیں استعمال کرتا
ہوں۔ کچھ لوگوں مجھے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سمجھتے ہیں، حالاں کہ میں کسی بھی
نظام کے خلاف نہیں ہوں۔ آج میں اپنی زندگی سے بہت خوش اور مطمئن ہوں، کیوں کہ میرے
پاس پیسوں کے بجائے دوست ہیں، جو میری حقیقی سکیورٹی ہیں۔ یورپ روحانی غربت کا
شکار ہے اور آزادی کے معنی بھی مختلف ہیں۔ لوگ جب مجھ سے میری پرانی زندگی یعنی
ملازمت، ٹریفک جام، گھر اور یوٹیلیٹی بلزکے بارے میں پوچھتے ہیں، تو میں صرف ایک آہ
بھرتا ہوں۔
Comments
Post a Comment