علی ؓکے چہرے کو دیکھنا بھی عبادت
علی ؓکے چہرے کو دیکھنا بھی عبادت
حافظ کریم اللہ چشتی
اللہ پاک نے حضرت علی المرتضیٰؓ کی صفت وثناء قرآن پاک میں یوں بیان فرمائی ہے
ارشادباری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ :’’اورکھاناکھلاتے
ہیں اس کی محبت پرمسکین اوریتیم اوراسیرکو۔‘‘(پارہ 29سورۃ
الدہر ) ۔ دامادِ رسول،فاتحِ خبیر،حاملِ ذوالفقار،خلیفہ چہارم امیر المومنین حضرت علی
المرتضیٰؓ کے فضائل ومناقب محاسن ومحامدبے شمارہیں اورکیوں
نہ ہوں جبکہ فضائل وکمالات برکات وحسنات کا مخزن ومعدن آپؓ ہی کاگھرانہ ہے جس کسی کوبھی کوئی نعمت ملی ان ہی کاصدقہ اوران ہی کی بدولت ہے۔آپؓ کی پیدائش خانہ کعبہ میں ہوئی ۔آپؓ کی والدہ محترمہ کا بیان ہے کہ حضرت علی المرتضیؓ نے پیداہونے کے بعدتین
دن تک دودھ نہیں پیاجس کی وجہ سے گھروالے سب پریشان ہوگئے ۔ اس بات کی خبرآقائے دو جہاں سرورکون
ومکاں ؐ کودی گئی ۔آپ ؐ تشریف لائے اورحضرت علی المرتضیٰ ؓ کو آغوش رحمت میں لیکرپیار فرمایااوراپنی زبان اطہرآپؓ کے دہن میں ڈال دی ۔حضرت علی ؓ زبان اقدس کوچوسنے لگے
اس کے بعدسے آپؓ دودھ نوش فرمانے لگ گئے۔ آپؓ نے صرف 5سال
اپنے والدین کے زیر سایہ پرورش پائی ۔اس کے بعدنبی کریمؐ نے اپنے سایہ رحمت میں لے لیااورآپؓ کی تربیت فرمانے لگے ۔آپؓ بچوں میں سب سے پہلے ایمان لائے۔(مشکوٰۃ
المصابیح ) آپؓ حضوراکرمؐ کی سیرت کاآئینہ تھے
یہی وجہ ہے کہ اللہ
کے محبوبؐ نے فرمایا’’علیؓ کے چہرے کودیکھنابھی عبادت ہے‘‘۔آپؓ قرآن مجیدکے حافظ تھے،
قرآن کے معانی ومطالب پرآپؓ کوعبور
حاصل تھا۔آپؓ علم فقہ کے ماہرتھے، مشکل سے مشکل فیصلے بھی
قرآن وسنت کی روشنی میں حل کرلیتے ۔آقاؐ کافرمان عالی شان ہے’’میں علم کاشہرہوں اور علیؓ اس کادروازہ ہے۔‘‘آپؓ سے 586 احادیث مبارکہ روایت ہیں ۔ آپؓ محنت مزدوری میں کچھ عارمحسوس نہیں کرتے تھے جب آپؓ ایمان لائے اسوقت آپؓ کی عمردس یابارہ سال تھی۔
سوائے غزوہ تبوک کے سارے غزوات میں آپ ؐکے
ساتھ شریک ہوئے ۔ غزوہ تبوک میں رسول کریمؐ نے مدینہ منورہ اوراپنے
گھربارکاانتظام فرمانے کیلئے آپؓ کو مدینہ میں چھوڑاتھا۔
حضرت سعدبن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ حضورنبی کریم ؐنے غزوہ تبوک کے موقع پرحضرت سیدناعلی المرتضیٰؓ کومدینہ منورہ میں اپناقائم مقام مقررفرمایا۔حضرت علی ؓ آقاؐسے عرض کرنے لگے یارسولؐ اللہ!آپ ؐمجھے عورتوں اور
بچوں پرخلیفہ بناکرجارہے ہیں ۔آقاؐنے
حضرت علیؓ سے فرمایا’’اے علیؓ! کیاتواس بات پرراضی نہیں کہ میں تمہیں اس طرح چھوڑے
جارہا ہوں جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کوچھوڑا،فرق
صرف اتناہے کہ میرے بعدکوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘ آقاؐ کو حضرت علیؓ سے بے پناہ محبت تھی ۔حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ حضورنبی کریمؐ نے فرمایا’’ منافق علیؓ سے محبت نہیں رکھتااورمومن علیؓ سے بغض
نہیں رکھتا۔‘‘حضرت ابن وقاصؓ فرماتے ہیں کہ حضورنبی کریم ؐ مکہ مکرمہ سے واپس مدینہ منورہ تشریف لارہے
تھے، آپ ؐنے مقام غدیرخم پراپنے
تمام صحابہ کرام ؓ کوجمع کیا اورفرمایا’’تمہاراولی کون ہے؟ ‘‘ صحابہ کرامؓ نے تین
مرتبہ جواب میں کہاہماراولی اللہ
اوراس کے رسولؐ ہیں حضورنبی کریم ؐنے فرمایاکہ’’ جس کاولی اللہ اور اس کارسول ؐ ہے اس کاولی علیؓ بھی ہے ۔‘‘ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشادفرمایا ’’ابوبکرصدیق دین کاستون ،
عمرفاروق فتنوںکوبند کرنے والے، عثمان غنی منافقوں کیلئے قیدخانہ اور علیؓ المرتضیٰ مجھ سے ہیں اورمیں ان سے ہوں جہاں میں ہوگاوہاں علیؓ المرتضیٰ ہوں گے اورجہاں وہ وہاں میں
۔‘‘ جس وقت مکہ مکرمہ میں مشرکین مکہ کے مظالم حدسے بڑھ گئے توآقاؐنے اللہ کے حکم سے
صحابہؓ کودعوت دی کہ مدینہ کی جانب ہجرت کرجائیں۔کئی صحابہ ؓیکے بعددیگرے مدینہ کی
طرف ہجرت کرگئے ۔ مشرکین مکہ کو جب معلوم ہواکہ آقاؐنے مسلمانوں کیلئے ایک محفوظ آماجگاہ مدینہ کی صورت میں ڈھونڈلی
ہے توکفارکے سرداروں نے یہ فیصلہ کیاکہ (نعوذباللہ)آقاؐ کوقتل کردیاجائے ۔آقاؐ کوبذریعہ وحی مشرکین مکہ کے ناپاک ارادوں کی
خبرہوئی تو آپ ؐنے حضرت علی المرتضیٰ ؓ کواپنے بسترپرلٹایااورانہیں حکم دیاکہ وہ صبح ہوتے ہی لوگوں کی وہ
امانتیں جوآقاؐکے پاس موجودتھیں وہ
متعلقہ لوگوں کوواپس کرکے مدینہ پہنچیں روایات میں آتاہے کہ نبی کریم ؐسورہ یٰسین کی تلاوت
کرتے ہوئے گھرسے باہرتشریف لائے آقاؐنے
مٹھی بھر کر خاک کفارکے منہ پرماری جس سے وہ اندھے ہوگئے ۔ حضرت علی المرتضیٰؓ نے آقاؐکے فرمان کے مطابق صبح
ہوتے ہی لوگوں کوامانتیں واپس کرکے مکہ سے مدینہ کی جانب سفرہجرت شروع کردیا۔آپؓ قباکے مقام پرآقاؐ اورحضرت ابوبکرصدیقؓ سے جاملے۔ آقاؐنے قباکے مقام پرایک
مسجدکی بنیادرکھی جس کی تعمیرمیں آپؓ نے بھی آقاؐکے شانہ بشانہ حصہ
لیا۔وہ مسجدجمعہ کے روزمکمل ہوئی، آقاؐنے
جمعہ کی نمازبھی اسی مسجدمیں اداکی اس لئے تاریخ میں یہ مسجد’’مسجدجمعہ‘‘کے نام پرمشہورہوگئی
۔ غزوات نبویؐ میں خواہ وہ بدرواحدہوں یااحزاب وحنین، بنوقریظہ کیخلاف معرکہ
ہو۔ہرموقع پر حضرت
علی ؓکے کارنامے اتنے نمایاں
رہے کہ غزوات نبویؐ کاکوئی معرکہ آپؓ کے ذکرکے بغیرمکمل نہیں
ہوتا۔ آپؓ کاسارازمانہ خلافت جنگوں اورفتنوں فسادکی نذر
ہوا۔ 17رمضان المبارک 40ہجری بروزجمعہ فجرکے وقت خارجی عبدالرحمن ابن ملجم مرادی
اپنے دوساتھی شبیب اوروردان کے ہمراہ جامع مسجدکوفہ پہنچا،تینوں مسجدکے ایک کونے
میں چھپ گئے ۔جس وقت آپؓ نمازفجرکیلئے
تشریف لائے اس وقت شبیب نے آپؓ پر پہلاوار کیااوراس کے
بعدعبدالرحمٰن ابن ملجم نے دوسراوارکیا ، وار د ن یہ دیکھ کربھاگ کھڑاہوا۔شبیب بھی
وارکرنے کے بعد بھاگ نکلا اور خارجی عبدالرحمن ابن ملجم مرادی پکڑاگیا۔آپؓ نے حالت زخمی میں اپنے بچوںکوچندنصیحتیں اوروصیت
کی ۔نصیحتیں اوروصیت کرنے کے بعدکلمہ توحیدپڑھااوراپنی جان اللہ کے سپردکردی ۔آپ ؓنے 21 رمضان
المبارک63ہجری کواس جہان فانی سے کوچ فرمایا۔آپؓ کوحضرت سیدناامام حسن
ؓ، حضرت سیدناامام حسین ؓ اورحضرت عبداللہ بن جعفرؓ نے غسل دیا۔حضرت سیدناامام حسن
ؓ نے نمازہ جنازہ پڑھائی اور آپؓ نجف
شریف میں مدفون ہیں ۔ اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔ اللہ رب العزت آپؓ کی قبرانورپراپنی رحمتوں کانزول فرمائے انہی کے
صدقے ہمارے گناہ معاف فرمائے ۔آمین
٭٭٭٭
Comments
Post a Comment