داعش سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں ! ||| لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان
داعش سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں!
لیفٹیننٹ
کرنل(ر)غلام جیلانی خان
*دولتِ اسلامیہ عراق و شام
(داعش) نے اب پاکستان کا رخ کر لیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور اس طرح
کی دوسری دہشت گرد تنظیموں نے داعش میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔طالبان کے وہ
عناصر جن کو پاک آرمی اور پاک فضائیہ نے شمالی وزیرستان سے نکال باہر کیا تھا، ان
سب نے انتقاماً داعش جوائن کرلی ہے اور عنقریب یہ لوگ پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا
دیں گے۔( پاکستانی پریس میڈیا اکتوبر 2014ء)
* داعش کی اعلیٰ کمانڈ نے بھارت کے وزیراعظم کے نام ایک کھلا خط جاری
کیا ہے، جس میں کہا ہے کہ وہ آنے والے چند ہفتوں میں ہندوستان میں داخل ہو کر اس
عظیم اسلامی دور کو بحال کرے گی جس نے 800برس تک برصغیر پر حکومت کی تھی۔ (NDTV 10اکتوبر
2014ء)
*داعش، مقبوضہ کشمیر میں داخل
ہو چکی ہے۔اس کے مخصوص سیاہ پرچم جن پر کلمہ ء طیبہ لکھا ہوا ہے، سری نگر کے گھروں
کی کئی چھتوں پر لہراتے دیکھے گئے ہیں۔ سری نگر کے کورکمانڈر نے اخباری نمائندوں
کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ داعش، بھارت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ ہمیں اس
کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے۔لیکن دوسری طرف وزیراعظم بھارت نریندر مودی نے کہا
کہ داعش بھارت میں اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہو سکتی، کیونکہ بھارتی مسلمانوں کے
دلوں میں اپنے وطن (بھارت) کی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔
(ٹائمز آف
انڈیا۔15اکتوبر 2014ء)
*جون 2014ء میں داعش نے عراقی
شہر موصل پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کے جنگجوؤں نے 1500افراد کو پکڑ کر ان کو ایک
ندی کے کنارے لے جا کر ذبح کر دیا تھا۔ان میں 600شیعہ مسلمان، عیسائی اور یزدی فرقے
کے لوگ شامل تھے۔ان میں سے 40نے بھاگ کر جانیں بچائیں لیکن بعد میں بھوک اور پیاس کی شدت سے تڑپ
تڑپ کر جان دے دی۔۔۔ داعش کے عسکریت پسندوں نے اب حال ہی میں عراق میں 30سنی مسلمانوں
کو پکڑا ہے جن کو فی الفور گولی مار دی گئی ہے۔ پچھلے دنوں ابو نمیر کے قبیلے کے
48افراد کی اجتماعی قبروں کا سراغ لگایا گیا۔شدت پسندوں نے انہیں عراقی شہر ’’حیت ‘‘ (Hit) میں لا کر ان کو نہایت بے دردی سے قتل کر دیا ۔ موصل میں 20سے
زیادہ پولیس افسروں کو گولی مار دی گئی۔یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پہلے داعش میں شرکت
کی تھی لیکن پھر حکومت سے جا ملے تھے۔ (رشین ٹی وی نیوز یکم نومبر2014ء)
* صدام حسین دور کی عراقی فضائیہ کے پائلٹ ایک ماہ کی تازہ ٹریننگ لے
کر داعش کی فضائیہ میں شامل ہو گئے ہیں اور امریکی و برطانوی فضائیہ کے طیاروں کے
ساتھ ان کی ڈاگ فائٹ جاری ہے۔( پیٹربرجر۔ سی این این۔20اکتوبر 2014ء)
*۔۔۔اگر عراق میں داعش
کا خاتمہ بھی کر دیا گیا تو بھی صدام کی باقیات کی صورت میں ایسے ’’سنی گروپ‘‘
وہاں موجود ہیں جو موجودہ حکومت عراق کے لئے ایک بڑا خطرہ ہوں گے۔(رائٹر 13اکتوبر
2014ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین گرامی! گزشتہ ماہ (16،17 اکتوبر) میں
نے اپنے دو کالموں میں جو ’’داعش‘‘ کے عنوان سے اس اخبار میں شائع ہوئے ایک مغربی
صحافی پیٹرک کوک برن (Patrick Cockburn) کی ایک کتاب کا ذکر کیا تھا جس کا نام جہادیوں کی واپسی (Jihadies Return) تھا اور جو حال ہی 28)اگست2014ء) لندن اور نیویارک سے شائع ہوئی تھی۔اس کتاب میں بھی کوک
برن نے داعش کی تخلیق و تشکیل پر روشنی ڈالی تھی۔اس کا موقف تھا کہ یہ داعش دراصل
سعودی عرب اور امارات کی مشترکہ تخلیق ہے جو عراق میں شیعہ حکومت کو برسراقتدار
نہیں دیکھنا چاہتی۔ سعودیوں کے دباؤ پر ہی امریکہ نے نوری المالکی کی حکومت کو
اگرچہ برطرف کر دیا اور اس کی جگہ ایک متوازن العقیدہ وزیراعظم کو اقتدار سونپ دیا
لیکن اب بھی موجودہ عراقی حکومت پر ایران کا کافی اثرورسوخ ہے اور اسی اثرورسوخ کو
کم کرنے کے لئے سعودیوں اور خلیجی ریاستوں کے سنی العقیدہ حکمرانوں نے داعش کی
تخلیق کرکے اس کی مالی اور اسلحی مدد کی ہے۔
لیکن اب جس طرح داعش کے خطرات کو ہوا دی
جا رہی ہے اور اس کے اہداف میں پاکستان کو بھی شامل کیا جا رہا ہے،وہ واقعی ہم پاکستانیوں
کے ایک لمحہء فکریہ ہیں۔ پاکستان کی ایجنسیاں( ISI اور MI اور دیگر) اس خطرے اور اس موضوع سے بے خبر نہیں ہوں گی۔ حال ہی میں
خیبر آپریشن میں پاک فوج کے جو سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے ہیں اور واہگہ کی پریڈ
والے خودکش حملے میں جو 62سویلین (اور رینجرز) مارے گئے، ان میں داعش کا ’’تعاون‘‘
بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔
اس تناظر میں،میں گزشتہ کئی روز سے گلوبل
میڈیا پر داعش کی جو کوریج دیکھ رہا ہوں،۔اس کالم کے آغاز میں اس کے کے چند حصے
پیش کئے گئے ہیں۔اس کوریج میں جس تفصیل سے کام لیا جا رہا ہے اور جو تصاویر جاری
کی جا رہی ہیں، ان کو پڑھ اور دیکھ کر میں نے ایک الگ نتیجہ اخذ کیا ہے،جس سے
قارئین کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے اس بات پر غور کیجئے کہ یہ
داعش کا فتنہ یکدم شمالی عراق سے ابل کر تکریت اور موصل جیسے شہروں پرقابض نہیں
ہوگیا۔اس کی تنظیم، اس کی ٹریننگ، اس کا اسلحہ، اس کا خرچہ اور سب سے بڑھ کر اس کی
پلاننگ کسی دیوبندی یا سلفی گروہ یا حکومت نے نہیں کی۔ سعودی حکومت، متحدہ عرب
امارات یا کسی اور خلیجی ریاست کا یہ وژن ہی نہیں کہ وہ اس سکیل کی پلاننگ کر
سکے۔۔۔بلاشبہ یہ پلاننگ CIA کی طرف سے کی گئی اور اس میں اسرائیلی حکومت شامل ہے۔
اسرائیلی حکومت کی شمولیت اس لئے ضروری
تھی کہ وہ عراق میں نوری المالکی حکومت کو پھلتا پھولتا اور ایرانی اثر و رسوخ کا
فروغ برداشت نہیں کر رہی تھی۔امریکہ کی CIA اور اسرائیل کی Mossad ایک ہی تنظیم کی دو شاخیں ہیں۔ان کے ٹیکٹیکل اہداف میں شائد کچھ
فرق ہو تو ہو، سٹرٹیجک ٹارگٹ بالکل ایک ہیں۔
داعش کے فتنے کی تخلیق اور وہ بھی جدید
ٹیکنالوجی کے اس دور میں، کس طرح خفیہ رہ سکتی ہے۔ ہاں عربوں اور ایرانیوں سے اس
کو پوشیدہ رکھا جا سکتا تھا جو رکھا گیا۔داعش کی تشکیل و تربیت میں CIA نے باقی تو سب کچھ دیا،لیکن ٹریننگ انسٹرکٹر دینے کی اہلیت اس میں
نہیں تھی۔وجہ یہ تھی کہ CIAکے امریکیوں کو عربی نہیں آتی اور یہ انسٹرکشن ، یہ ٹریننگ اور یہ
عسکری تربیت صرف ترجمانوں (Interpreters) کی مدد سے روبہ عمل نہیں لائی جا سکتی تھی۔اس کے لئے ایسا تربیتی
عملہ (انسٹرکشنل سٹاف) درکار تھا جو عربوں کی طرح عربی بولتا ہو۔۔۔ اور وہ عملہ
صرف اسرائیل ہی مہیا کر سکتا تھا۔
اسرائیل کی سرکاری زبان عربی نہیں،
عبرانی ہے لیکن سارے اسرائیلی عربی جانتے اور بولتے بھی ہیں۔اسرائیل کی آدھی آبادی
ویسے بھی عرب نژاد ہے۔جو قارئین اسرائیل کے قیام کی تاریخ پر نظر رکھتے ہیں،ان کو
معلوم ہے کہ اس ’’عظیم فتنہ ء یہود‘‘ کا قیام کس طرح ممکن ہوا اور کیسے عمل میں
لایا گیا۔۔۔اگر کوئی قاری اسرائیل کی تشکیل کی تاریخ پڑھنے کا شوق رکھتے ہوں تو ان
کو مہینوں نہیں، برسوں مسلسل اور گہرے مطالعے کی ضرورت ہوگی!
آج اسرائیل کی آبادی کتنے لاکھ ہے اور اس
میں کتنے لاکھ یہودی، عربی النسل ہیں، اس کا جاننا از حد ضروری ہے۔داعش کے نئے
کاڈر (Cadre) کو تربیت دینے کے لئے جن انسٹرکٹروں کی ضرورت تھی،مجھے اس میں رتی
بھر شک نہیں کہ وہ صرف اسرائیل کی مساعی کی پیداوار ہیں۔یہ داعش عربی بولنے والے
ممالک میں تو کامیابیاں حاصل کر سکتی ہے،البتہ غیر عرب ممالک میں اس کی دال نہیں
گل سکتی۔
قارئین محترم!ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ
اس کرۂ ارض پر کہیں نہ کہیں جنگ و جدل کا بازار گرم رکھنا مغرب کی کمرشل مجبوری ہے
۔تمام روئے زمین پر اگر امن قائم ہو جائے تو یورپ اور امریکہ کی وہ سینکڑوں اسلحہ
ساز فیکٹریاں کہاں جائیں گی جن میں ان کے لاکھوں شہری کام کررہے ہیں۔پاکستان سے لے
کر مراکش تک مسلمانوں کی نام نہاد حکومتیں قائم ہیں۔ان میں اوپیک کے ممتاز اراکین
بھی ہیں جو مشرق و مغرب کے کروڑوں سفید فام/ زرد فام اسلحہ سازوں کے اَن داتا ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب اس خطے میں جنگ کی گرد ذرا بیٹھنے لگتی ہے تو داعش کی طرح کی
کوئی نئی عسکری تنظیم اچانک کردستان کے پہاڑوں سے نکال کر متعارف کروا دی جاتی
ہے۔پھر اس کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں پھیلا دی جاتی ہیں اور اپنے میڈیا کو اس
تازہ بھٹی میں جھونک دیا جاتا ہے۔
میں اگلے روز رابرٹ فسک (Robert Fisk) کا ایک مضمون پڑھ رہا تھا(دیکھئے ڈان، لاہور ،4نومبر2014ء صفحہ
نمبر13) اول اول میں رابرٹ صاحب کا مداح تھا اور اسے مغرب کا ایک آزاد اور غیر
جانبدار صحافی گردانتا تھا۔یہ تو مجھے بعد میں پتہ چلا کہ یہ حضرت بھی قتیلِ شیوۂ
آذری ہیں اور مغرب کے کسی بھی Embedded صحافی سے کم Embeddedنہیں۔میں نے جس آرٹیکل کا ذکر کیا ہے اس کا عنوان ہے: ’’اسلامی
جنگجو، بحیرۂ روم کی لڑائی کے لئے تیار ہیں‘‘۔ اس آرٹیکل میں وہ شام کے ایک شہر
میں جاتے ہیں جس کا نام اشکرا ہے اور وہیں سے یہ رپورٹ فائل کرتے ہیں۔فرماتے ہیں:
’’انٹیلی جنس رپورٹیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ISIS اور شام کے
باغی آپس میں مل چکے ہیں اور اب ان کا ارادہ ہے کہ وہ مغرب کی طرف نکل کر بحیرۂ
روم میں ایک نئی جنگ کا آغاز کریں۔۔۔ یہاں (اشکرامیں) ایک آفیسر نے مجھے ایک
وڈیوٹیپ بھی دکھائی جس میں باغیوں کی طرف سے فائر کیا جانے والا ایک میزائل دکھایا
گیا جو اتفاقاً پھٹا نہیں تھا اور ریت میں دھنس گیا تھا۔اس میزائل پر صاف صاف لکھا
ہوا تھا کہ یہ امریکہ میں مینو فیکچر کیا گیاہے۔اس پر کمپیوٹر کوڈ بھی لکھا صاف
نظر آ رہا تھا اور اس کی بیٹری پر لاٹ نمبربھی صاف پڑھا جا سکتا تھا۔۔۔ امریکہ کی
طرف سے اس لڑائی میں جو لوگ استعمال کئے جا رہے ہیں وہ ترکمان ہیں جو مقامی زبان سے
خوب واقف ہیں۔ داعش بھی یہاں موجود تو ہے لیکن فی الحال اس کی تعداد کم ہے۔ ریڈیو
(وائرلیس) پر جو مواصلات سنی جا سکتی ہیں وہ عربی زبان میں ہیں اور ان کا لب و
لہجہ مصر،لیبا، خلیجی ریاستوں، تیونس اور مراکش کے لوگوں سے ملتا جلتا ہے‘‘۔
دیکھا آپ نے رابرٹ صاحب نے ان ممالک میں
سعودی عرب اور اسرائیل کو شامل نہیں کیا۔۔۔ان کو کیوں نہیں کیا، یہ میرے بتانے کی ضرورت
نہیں!
اہلِ مغرب کی ایک اور عیاری ملاحظہ کریں
کہ وہ داعش کو ایک خوفناک تنظیم ڈکلیئر کرکے بظاہر اس پر خود فضائی حملے کررہی ہے،
اس کا ’’قلع قمع‘‘ کرنے میں ’’ایڑی چوٹی‘‘ کا زور لگا رہی ہے۔ فرانس،
برطانیہ اور امریکہ ’’داعش‘‘ کو صفحہ ء ہستی سے مٹانے کے لئے میدان میں نکل پڑے ہیں۔لیکن
یہ داعش ہے کہ پھلتی پھولتی ہی چلی جاتی ہے اور ’’کسی‘‘ کے قابو ہی میں نہیں آ رہی!
بھارتی وزیراعظم کو داعش کی طرف سے کسی
خط کا لکھا جانا یا پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں کو داعش کی طرف سے تعاون کی کوئی پیشکش
یا مستقبل قریب و بعید میں داعش کا کوئی رول نہ مجھے بھارت میں نظر آتا ہے، نہ
مقبوضہ کشمیر میں اور نہ ہی پاکستان میں۔ ہاں البتہ پاکستانی (یا
بھارتی) عوام میں داعش کے نام کا ایک نفسیاتی دباؤ ضرور پیدا کیا جا سکتا
ہے۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا اپنا پرچم ہے جوداعش کے پرچم کو کبھی قبول نہیں
کرے گا۔اسرائیل پہلے بھی پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیموں کی دامے، درمے اور اسلحے
مدد کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ امریکہ کی CIAاگر صاف کھل کر سامنے
نہ آئی تو پوشیدہ طور پر اسرائیل کا ساتھ دیتی رہے گی۔پاکستان کی انٹیلی جنس
ایجنسیاں اس باب میں خاصی باخبر ہوں گی۔
میں ایک کالم نگار کی حیثیت سے اپنے
قارئین کی معلومات میں یہ سرسری سا اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ داعش سے نہ
گھبرائیں۔ شمالی وزیرستان میں پاک آرمی نے جس طرح القاعدہ کی کمر توڑی ہے، وہ ایک
زندہ حقیقت ہے۔یہ واہگہ کا حالیہ حادثہ کسی کالعدم پنجابی گروپ کا ’’کارنامہ‘‘ ہو
سکتا ہے جو پنجاب رینجرز کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔اس کو پنجاب پولیس کے لیجر
میں رقم کرنا چاہیے۔پنجاب پولیس کو جب تک کاؤنٹر انسرجنسی کے رول میں استعمال کرنے
کے واضح احکامات نہیں دیئے جائیں گے اور ان کو آئندہ اس قسم کی دہشت گردانہ کارروائیوں
کی ذمہ داری نہیں سونپی جائے گی تب تک واہگہ ٹائپ حادثات کو خارج از امکان قرار
نہیں دیا جا سکے گا۔
* داعش کی اعلیٰ کمانڈ نے بھارت کے وزیراعظم کے نام ایک کھلا خط جاری کیا ہے، جس میں کہا ہے کہ وہ آنے والے چند ہفتوں میں ہندوستان میں داخل ہو کر اس عظیم اسلامی دور کو بحال کرے گی جس نے 800برس تک برصغیر پر حکومت کی تھی۔ (NDTV 10اکتوبر 2014ء)
*داعش، مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو چکی ہے۔اس کے مخصوص سیاہ پرچم جن پر کلمہ ء طیبہ لکھا ہوا ہے، سری نگر کے گھروں کی کئی چھتوں پر لہراتے دیکھے گئے ہیں۔ سری نگر کے کورکمانڈر نے اخباری نمائندوں کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ داعش، بھارت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ ہمیں اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے۔لیکن دوسری طرف وزیراعظم بھارت نریندر مودی نے کہا کہ داعش بھارت میں اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہو سکتی، کیونکہ بھارتی مسلمانوں کے دلوں میں اپنے وطن (بھارت) کی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔
(ٹائمز آف انڈیا۔15اکتوبر 2014ء)
*جون 2014ء میں داعش نے عراقی شہر موصل پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کے جنگجوؤں نے 1500افراد کو پکڑ کر ان کو ایک ندی کے کنارے لے جا کر ذبح کر دیا تھا۔ان میں 600شیعہ مسلمان، عیسائی اور یزدی فرقے کے لوگ شامل تھے۔ان میں سے 40نے بھاگ کر جانیں بچائیں لیکن بعد میں بھوک اور پیاس کی شدت سے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔۔۔ داعش کے عسکریت پسندوں نے اب حال ہی میں عراق میں 30سنی مسلمانوں کو پکڑا ہے جن کو فی الفور گولی مار دی گئی ہے۔ پچھلے دنوں ابو نمیر کے قبیلے کے 48افراد کی اجتماعی قبروں کا سراغ لگایا گیا۔شدت پسندوں نے انہیں عراقی شہر ’’حیت ‘‘ (Hit) میں لا کر ان کو نہایت بے دردی سے قتل کر دیا ۔ موصل میں 20سے زیادہ پولیس افسروں کو گولی مار دی گئی۔یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پہلے داعش میں شرکت کی تھی لیکن پھر حکومت سے جا ملے تھے۔ (رشین ٹی وی نیوز یکم نومبر2014ء)
* صدام حسین دور کی عراقی فضائیہ کے پائلٹ ایک ماہ کی تازہ ٹریننگ لے کر داعش کی فضائیہ میں شامل ہو گئے ہیں اور امریکی و برطانوی فضائیہ کے طیاروں کے ساتھ ان کی ڈاگ فائٹ جاری ہے۔( پیٹربرجر۔ سی این این۔20اکتوبر 2014ء)
*۔۔۔اگر عراق میں داعش کا خاتمہ بھی کر دیا گیا تو بھی صدام کی باقیات کی صورت میں ایسے ’’سنی گروپ‘‘ وہاں موجود ہیں جو موجودہ حکومت عراق کے لئے ایک بڑا خطرہ ہوں گے۔(رائٹر 13اکتوبر 2014ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین گرامی! گزشتہ ماہ (16،17 اکتوبر) میں نے اپنے دو کالموں میں جو ’’داعش‘‘ کے عنوان سے اس اخبار میں شائع ہوئے ایک مغربی صحافی پیٹرک کوک برن (Patrick Cockburn) کی ایک کتاب کا ذکر کیا تھا جس کا نام جہادیوں کی واپسی (Jihadies Return) تھا اور جو حال ہی 28)اگست2014ء) لندن اور نیویارک سے شائع ہوئی تھی۔اس کتاب میں بھی کوک برن نے داعش کی تخلیق و تشکیل پر روشنی ڈالی تھی۔اس کا موقف تھا کہ یہ داعش دراصل سعودی عرب اور امارات کی مشترکہ تخلیق ہے جو عراق میں شیعہ حکومت کو برسراقتدار نہیں دیکھنا چاہتی۔ سعودیوں کے دباؤ پر ہی امریکہ نے نوری المالکی کی حکومت کو اگرچہ برطرف کر دیا اور اس کی جگہ ایک متوازن العقیدہ وزیراعظم کو اقتدار سونپ دیا لیکن اب بھی موجودہ عراقی حکومت پر ایران کا کافی اثرورسوخ ہے اور اسی اثرورسوخ کو کم کرنے کے لئے سعودیوں اور خلیجی ریاستوں کے سنی العقیدہ حکمرانوں نے داعش کی تخلیق کرکے اس کی مالی اور اسلحی مدد کی ہے۔
لیکن اب جس طرح داعش کے خطرات کو ہوا دی جا رہی ہے اور اس کے اہداف میں پاکستان کو بھی شامل کیا جا رہا ہے،وہ واقعی ہم پاکستانیوں کے ایک لمحہء فکریہ ہیں۔ پاکستان کی ایجنسیاں( ISI اور MI اور دیگر) اس خطرے اور اس موضوع سے بے خبر نہیں ہوں گی۔ حال ہی میں خیبر آپریشن میں پاک فوج کے جو سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے ہیں اور واہگہ کی پریڈ والے خودکش حملے میں جو 62سویلین (اور رینجرز) مارے گئے، ان میں داعش کا ’’تعاون‘‘ بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔
اس تناظر میں،میں گزشتہ کئی روز سے گلوبل میڈیا پر داعش کی جو کوریج دیکھ رہا ہوں،۔اس کالم کے آغاز میں اس کے کے چند حصے پیش کئے گئے ہیں۔اس کوریج میں جس تفصیل سے کام لیا جا رہا ہے اور جو تصاویر جاری کی جا رہی ہیں، ان کو پڑھ اور دیکھ کر میں نے ایک الگ نتیجہ اخذ کیا ہے،جس سے قارئین کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے اس بات پر غور کیجئے کہ یہ داعش کا فتنہ یکدم شمالی عراق سے ابل کر تکریت اور موصل جیسے شہروں پرقابض نہیں ہوگیا۔اس کی تنظیم، اس کی ٹریننگ، اس کا اسلحہ، اس کا خرچہ اور سب سے بڑھ کر اس کی پلاننگ کسی دیوبندی یا سلفی گروہ یا حکومت نے نہیں کی۔ سعودی حکومت، متحدہ عرب امارات یا کسی اور خلیجی ریاست کا یہ وژن ہی نہیں کہ وہ اس سکیل کی پلاننگ کر سکے۔۔۔بلاشبہ یہ پلاننگ CIA کی طرف سے کی گئی اور اس میں اسرائیلی حکومت شامل ہے۔
اسرائیلی حکومت کی شمولیت اس لئے ضروری تھی کہ وہ عراق میں نوری المالکی حکومت کو پھلتا پھولتا اور ایرانی اثر و رسوخ کا فروغ برداشت نہیں کر رہی تھی۔امریکہ کی CIA اور اسرائیل کی Mossad ایک ہی تنظیم کی دو شاخیں ہیں۔ان کے ٹیکٹیکل اہداف میں شائد کچھ فرق ہو تو ہو، سٹرٹیجک ٹارگٹ بالکل ایک ہیں۔
داعش کے فتنے کی تخلیق اور وہ بھی جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں، کس طرح خفیہ رہ سکتی ہے۔ ہاں عربوں اور ایرانیوں سے اس کو پوشیدہ رکھا جا سکتا تھا جو رکھا گیا۔داعش کی تشکیل و تربیت میں CIA نے باقی تو سب کچھ دیا،لیکن ٹریننگ انسٹرکٹر دینے کی اہلیت اس میں نہیں تھی۔وجہ یہ تھی کہ CIAکے امریکیوں کو عربی نہیں آتی اور یہ انسٹرکشن ، یہ ٹریننگ اور یہ عسکری تربیت صرف ترجمانوں (Interpreters) کی مدد سے روبہ عمل نہیں لائی جا سکتی تھی۔اس کے لئے ایسا تربیتی عملہ (انسٹرکشنل سٹاف) درکار تھا جو عربوں کی طرح عربی بولتا ہو۔۔۔ اور وہ عملہ صرف اسرائیل ہی مہیا کر سکتا تھا۔
اسرائیل کی سرکاری زبان عربی نہیں، عبرانی ہے لیکن سارے اسرائیلی عربی جانتے اور بولتے بھی ہیں۔اسرائیل کی آدھی آبادی ویسے بھی عرب نژاد ہے۔جو قارئین اسرائیل کے قیام کی تاریخ پر نظر رکھتے ہیں،ان کو معلوم ہے کہ اس ’’عظیم فتنہ ء یہود‘‘ کا قیام کس طرح ممکن ہوا اور کیسے عمل میں لایا گیا۔۔۔اگر کوئی قاری اسرائیل کی تشکیل کی تاریخ پڑھنے کا شوق رکھتے ہوں تو ان کو مہینوں نہیں، برسوں مسلسل اور گہرے مطالعے کی ضرورت ہوگی!
آج اسرائیل کی آبادی کتنے لاکھ ہے اور اس میں کتنے لاکھ یہودی، عربی النسل ہیں، اس کا جاننا از حد ضروری ہے۔داعش کے نئے کاڈر (Cadre) کو تربیت دینے کے لئے جن انسٹرکٹروں کی ضرورت تھی،مجھے اس میں رتی بھر شک نہیں کہ وہ صرف اسرائیل کی مساعی کی پیداوار ہیں۔یہ داعش عربی بولنے والے ممالک میں تو کامیابیاں حاصل کر سکتی ہے،البتہ غیر عرب ممالک میں اس کی دال نہیں گل سکتی۔
قارئین محترم!ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اس کرۂ ارض پر کہیں نہ کہیں جنگ و جدل کا بازار گرم رکھنا مغرب کی کمرشل مجبوری ہے ۔تمام روئے زمین پر اگر امن قائم ہو جائے تو یورپ اور امریکہ کی وہ سینکڑوں اسلحہ ساز فیکٹریاں کہاں جائیں گی جن میں ان کے لاکھوں شہری کام کررہے ہیں۔پاکستان سے لے کر مراکش تک مسلمانوں کی نام نہاد حکومتیں قائم ہیں۔ان میں اوپیک کے ممتاز اراکین بھی ہیں جو مشرق و مغرب کے کروڑوں سفید فام/ زرد فام اسلحہ سازوں کے اَن داتا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس خطے میں جنگ کی گرد ذرا بیٹھنے لگتی ہے تو داعش کی طرح کی کوئی نئی عسکری تنظیم اچانک کردستان کے پہاڑوں سے نکال کر متعارف کروا دی جاتی ہے۔پھر اس کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں پھیلا دی جاتی ہیں اور اپنے میڈیا کو اس تازہ بھٹی میں جھونک دیا جاتا ہے۔
میں اگلے روز رابرٹ فسک (Robert Fisk) کا ایک مضمون پڑھ رہا تھا(دیکھئے ڈان، لاہور ،4نومبر2014ء صفحہ نمبر13) اول اول میں رابرٹ صاحب کا مداح تھا اور اسے مغرب کا ایک آزاد اور غیر جانبدار صحافی گردانتا تھا۔یہ تو مجھے بعد میں پتہ چلا کہ یہ حضرت بھی قتیلِ شیوۂ آذری ہیں اور مغرب کے کسی بھی Embedded صحافی سے کم Embeddedنہیں۔میں نے جس آرٹیکل کا ذکر کیا ہے اس کا عنوان ہے: ’’اسلامی جنگجو، بحیرۂ روم کی لڑائی کے لئے تیار ہیں‘‘۔ اس آرٹیکل میں وہ شام کے ایک شہر میں جاتے ہیں جس کا نام اشکرا ہے اور وہیں سے یہ رپورٹ فائل کرتے ہیں۔فرماتے ہیں: ’’انٹیلی جنس رپورٹیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ISIS اور شام کے باغی آپس میں مل چکے ہیں اور اب ان کا ارادہ ہے کہ وہ مغرب کی طرف نکل کر بحیرۂ روم میں ایک نئی جنگ کا آغاز کریں۔۔۔ یہاں (اشکرامیں) ایک آفیسر نے مجھے ایک وڈیوٹیپ بھی دکھائی جس میں باغیوں کی طرف سے فائر کیا جانے والا ایک میزائل دکھایا گیا جو اتفاقاً پھٹا نہیں تھا اور ریت میں دھنس گیا تھا۔اس میزائل پر صاف صاف لکھا ہوا تھا کہ یہ امریکہ میں مینو فیکچر کیا گیاہے۔اس پر کمپیوٹر کوڈ بھی لکھا صاف نظر آ رہا تھا اور اس کی بیٹری پر لاٹ نمبربھی صاف پڑھا جا سکتا تھا۔۔۔ امریکہ کی طرف سے اس لڑائی میں جو لوگ استعمال کئے جا رہے ہیں وہ ترکمان ہیں جو مقامی زبان سے خوب واقف ہیں۔ داعش بھی یہاں موجود تو ہے لیکن فی الحال اس کی تعداد کم ہے۔ ریڈیو (وائرلیس) پر جو مواصلات سنی جا سکتی ہیں وہ عربی زبان میں ہیں اور ان کا لب و لہجہ مصر،لیبا، خلیجی ریاستوں، تیونس اور مراکش کے لوگوں سے ملتا جلتا ہے‘‘۔
دیکھا آپ نے رابرٹ صاحب نے ان ممالک میں سعودی عرب اور اسرائیل کو شامل نہیں کیا۔۔۔ان کو کیوں نہیں کیا، یہ میرے بتانے کی ضرورت نہیں!
اہلِ مغرب کی ایک اور عیاری ملاحظہ کریں کہ وہ داعش کو ایک خوفناک تنظیم ڈکلیئر کرکے بظاہر اس پر خود فضائی حملے کررہی ہے، اس کا ’’قلع قمع‘‘ کرنے میں ’’ایڑی چوٹی‘‘ کا زور لگا رہی ہے۔ فرانس، برطانیہ اور امریکہ ’’داعش‘‘ کو صفحہ ء ہستی سے مٹانے کے لئے میدان میں نکل پڑے ہیں۔لیکن یہ داعش ہے کہ پھلتی پھولتی ہی چلی جاتی ہے اور ’’کسی‘‘ کے قابو ہی میں نہیں آ رہی!
بھارتی وزیراعظم کو داعش کی طرف سے کسی خط کا لکھا جانا یا پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں کو داعش کی طرف سے تعاون کی کوئی پیشکش یا مستقبل قریب و بعید میں داعش کا کوئی رول نہ مجھے بھارت میں نظر آتا ہے، نہ مقبوضہ کشمیر میں اور نہ ہی پاکستان میں۔ ہاں البتہ پاکستانی (یا بھارتی) عوام میں داعش کے نام کا ایک نفسیاتی دباؤ ضرور پیدا کیا جا سکتا ہے۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا اپنا پرچم ہے جوداعش کے پرچم کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔اسرائیل پہلے بھی پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیموں کی دامے، درمے اور اسلحے مدد کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ امریکہ کی CIAاگر صاف کھل کر سامنے نہ آئی تو پوشیدہ طور پر اسرائیل کا ساتھ دیتی رہے گی۔پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس باب میں خاصی باخبر ہوں گی۔
میں ایک کالم نگار کی حیثیت سے اپنے قارئین کی معلومات میں یہ سرسری سا اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ داعش سے نہ گھبرائیں۔ شمالی وزیرستان میں پاک آرمی نے جس طرح القاعدہ کی کمر توڑی ہے، وہ ایک زندہ حقیقت ہے۔یہ واہگہ کا حالیہ حادثہ کسی کالعدم پنجابی گروپ کا ’’کارنامہ‘‘ ہو سکتا ہے جو پنجاب رینجرز کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔اس کو پنجاب پولیس کے لیجر میں رقم کرنا چاہیے۔پنجاب پولیس کو جب تک کاؤنٹر انسرجنسی کے رول میں استعمال کرنے کے واضح احکامات نہیں دیئے جائیں گے اور ان کو آئندہ اس قسم کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی ذمہ داری نہیں سونپی جائے گی تب تک واہگہ ٹائپ حادثات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکے گا۔
Comments
Post a Comment