Independence day and accountability

یوم آزادی اور احتساب
محمد عارف شاہ 

قوم اوروطن کی آزادی کا لمحہ ایسا جذباتی اور رومانی ہوتا ہے کہ اس کا احساس اور اندازہ وہی کرسکتے ہیں، جو 14اگست 1947کو اس سرزمین پر باحیات تھے۔ہر برس کی طرح اس برس بھی ہم آزادی کی سالگرہ منا رہے ہیں، زندہ قومیں ایسے مواقعے پر خوشیاں منانے کے ساتھ اپنا احتساب بھی کرتی ہیں اور یہ اندازہ لگاتی ہیں کہ انھوں نے آزادی کے بعد کیا کھویا اورکیا پایا اور ان کی منزل کتنی دور ہے۔جب آزادی کا اعلان ہوگیا تو یکایک ملک میں قتل وغارت شروع ہوگئی، جگہ جگہ لوگوں کی لاشیں، آگ سے لوگوں کے تباہ حال گھر، ایک اجڑے ہوئے دیارکا منظر پیش کررہے تھے، یہ حالات کب درست ہوں گے، زندگی کب معمول پر آئے گی کسی کے تصور میں نہ تھا۔اس وقت پورے ملک میں سب مسلمانوں میں اس قدر اتحاد تھا کہ اختلافات اور تفرقہ کا شائبہ تک نہ تھا۔ اس قدر اتحاد اور یگانگت اس سے بڑھ کرکیا ہوسکتی ہے کہ قائد اعظم کی آواز پر تمام مسلمان لبیک کہتے تھے، آج اس اتحاد کی اشد ضرورت ہے لیکن وہ مثالی اتحاد بالکل ناپید ہے۔
بعض اوقات مایوسی ہوتی ہے اور رونا بھی آتا ہے کہ ہم کہاں سے چلے تھے اورکہاں پہنچ گئے۔ اس وقت ہمارے عزائم کیا تھے،کیا جوش اورکیا ولولہ تھا اور آج کیا صورتحال ہے۔ اس وقت ہم ایک قوم نہیں بلکہ ہجوم بن چکے ہیں اور جس کا جی چاہتا ہے ہمیں ریوڑ کی مانند ہانکتا ہوا اس راستے پر گامزن کردیتا ہے جس کی کوئی منزل نہیں۔ شومئی قسمت بانیان پاکستان کی قیام پاکستان کے ابتدائی ایام میں رحلت کے بعد وطن عزیزکو مخلص، جہاں دیدہ اور دیانتدار قیادت میسر نہ آسکی۔ جس کی وجہ سے آزادی کے 68 برس بعد بھی ہم کسی واضح سمت اور منزل کے تعین کی بجائے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ مختلف ادوار میں حادثاتی طور پر ملک کی لیڈر شپ اور حکمرانی پر فائز افراد نے ذاتی مفادات کے لیے ملک کو جی بھرکے لوٹا، قومی خزانے کو شیرِ مادر سمجھ کر ڈکارا اور وطن عزیز کو کرپشن، بے ایمانی، بے انصافی، مہنگائی اور غربت کی اتھاہ دلدل میں دھکیل دیا۔سردست ملک کو درپیش سب سے اہم مسئلہ عصبیت ہے۔ شاید ہی عصبیت کی کوئی قسم ایسی ہو، جو آج ہم میںنہ پائی جاتی ہو، لسانی تعصب، صوبائی تعصب، فرقہ ورانہ تعصب، قبائلی تعصب، غرض یہ کہ کسی بھی لحاظ سے ہم عصبیت کا یا عصبیت ہمارا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں۔
پاکستانیت تو اس ٹنوں وزنی عصبیت کے پہاڑ تلے آخری سانسیں لے رہی ہے، جسے آکسیجن کی اشد ضرورت ہے اور وہ آکسیجن ہے، حب الوطنی۔ بھارت کے صوبے ہم سے زیادہ ہیں مگر وہاں صوبائیت نظر نہیں آتی، پاکستان کے صرف چار صوبے ہیں لیکن صوبائیت نے جیوے پاکستان پر غلبہ پا رکھا ہے، وہاں درجنوں زبانیں بولی جاتی ہیں مگر لسانیت نہیں، یہاں گنتی کی چند زبانیں بولی جاتی ہیں مگر لسانیت کا ناگ ڈس رہا ہے۔ آج ہم بحیثیت قوم تقسیم درتقسیم نظر آتے ہیں۔ قائداعظم کا دیا ہوا سلوگن جس میں اتحاد کو اولیت دی گئی تھی اس کی جگہ اختلاف نے لے لی ہے۔ صوبوں کو صوبوں پر اعتبار نہیں ہے بلکہ صوبے بھی اندرونی طور پر تقسیم شدہ ہیں۔بد قسمتی یہ ہے کہ صاحب اقتدار اور صاحب ثروت پاکستانی ملک کی دولت بیرون ملک منتقل کررہے ہیں۔ ہمارے لوگ بحیثیت قوم کسی سے کم نہیں لیکن ہمارے ہاں اچھی قیادت کا فقدان رہا اگر مخلص لیڈر شپ موجود ہو تو کسی چیز کی کمی نہیں،ہمارے لیڈر اور حکمرانوں نے عوام کی فلاح و بہبود کو پس پشت ڈال کر اپنے آپ کو امیر سے امیر ترکرنے کی کوشش کی اور عوام روز بروز پستی کی طرف بڑھتے گئے۔
اتنا بڑا ملک بیس کروڑ کے قریب آبادی، جفاکش، محنتی اور ذہین لوگ، بے پناہ وسائل، ایٹمی قوت لیکن اس سب کچھ کے باوجود ہم بحیثیت قوم مجموعی آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف آرہے ہیں لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے اور وہ بہت روشن رخ ہے۔ پاکستانی قوم تصور پاکستان سے منسلک ہے اور اپنا اندرونی و بیرونی دفاع کرسکتی ہے۔ ہم نیوکلیئر اسٹیٹ ہیں اور ہماری فوج دنیا کی اعلیٰ ترین فوج مانی جاتی ہے۔ پاک سرزمین کو دیمک کی طرح لگنے والی دہشتگردی کو تلف کیا جارہا ہے۔ ہماری بہادر،غیور اورباوقار فوج اپنے انتہائی موثر پیشہ ورانہ طریقے سے ملک کی سلامتی کی جنگ لڑ رہی ہیں، یہ ضرب عضب کی ضرب ہے اس میں کامیابی کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن ہے ہی نہیں۔
دنیا بھر میں ہماری افواج نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہوا ہے، ہم دنیا کی چھٹی بڑی ایٹمی قوت ہیں، ہماری فوج ہمارا سرمایہ ہیں، ہماری قوت ہیں، ہماری آبرو ہیں، اور یہی افواج ہماری قومی حمیت، غیرت اور آبرو مندی کی رکھوالی ہیں، انھیں اپنا کام موثر طریقے سے کرنا آتا ہے وہ اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے سرانجام دے رہی ہیں اگر چہ اس ذمے داری کو نبھاتے ہوئے ہماری افواج نے ہمت، شجاعت و استقلال کی لازوال داستانیں رقم کی ہیں، ہمارے ہزاروں غیور فوجی بھائیوں نے جام شہادت نوش کیا ہے مگر یہی بہادر افواج سرحد پر جاگتی آنکھوں سے پہرہ دیتی ہیں انھیں کی بدولت ہم اپنے گھروں میں چین کی نیند سوتے ہیں، یہ ہمارے محسن ہیں، اس آزادی کی سالگرہ پر ہم اپنے بہادر، غیور اور آبرو مند فوجی بھائیوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔قوموں کی زندگیوں کو ماہ وسال کے تناسب میں نہیں دیکھا جاتا۔
قوموں کو اپنے پاؤں پرکھڑے ہونے میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔ پاکستان الحمد اللہ قیام سے لے کر اب تک ترقی کی بہت سی منازل طے کرچکا ہے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان کیا تھا؟ کیا ہے؟ اورکیا کچھ کرسکتا ہے؟ پاکستان اور پاکستانیوں کی کیا صلاحیتیں ہیں؟ تو آپ 1947 میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے لمحات کو یاد کریں جب ہمارا دارالحکومت کراچی تھا۔ سرکاری دفاتر کراچی میں تھے، بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ دفاتر میں کاغذات کو نتھی کرنے کے لیے پیپر پن نہیں ہوتی تھی۔ اڑوس پڑوس میں کیکر کے درختوں سے کانٹے توڑ کر لائے جاتے تھے اور یوں سرکاری کاغذات نتھی کیے جاتے تھے، پھر دیکھیں کہ ہم کیکر کے کانٹوں سے کس طرح کہوٹہ تک پہنچے اور ہم نے کس طرح بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے فوری بعد چھ ایٹمی دھماکے کرکے چاغی کے سنگلاخ پہاڑوں کا رنگ تبدیل کردیا۔آج اگر تمام پاکستانی اپنے ذاتی وگروہی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اک دوجے کے ہم دم اور ہم ساز ہوجائیں اور وطن کی منفعت ہی کو اپنی منفعت سمجھیں تو ہمارا یہ اتحاد عصبیت کے پہاڑ کا سینہ چاک کرکے اس میں سے پاکستانیت کو صحیح سلامت برآمد کرسکتا ہے۔

آج ہمیں یہ عزم کرنا چاہیے کہ ہم پاکستان کو ایک بار پھر یقینی طور پر قائد اعظم محمد علی جناح کے وژن کا پاکستان بناکر رہیں گے۔ خواہش کے بعد نئی خواہش، خیال کے بعد نئے خیال اور خواب کے بعد نئے خواب کے ساتھ گزر بسرکرنا ہی زندگی ہے۔ اب تو پہلے سے زیادہ اچھا موسم ہے، اب تو پہلے سے زیادہ اچھے دن ہیں، ہم نے تو بہت برے دن گزارے ہیں، ہم نے تو ان برے دنوں میں بھی اپنی امیدیں نہیں ہاریں، وہ ساری امیدیں ہمارے وجود میں مہک رہی ہیں، ہماری نمود میں دمک رہی ہیں، اب ہمیں نئی امیدوں اور نئی تمناؤں کے ساتھ نئے جذبے گنگنانا چاہئیں تاکہ جمہوریت زندہ رہے، پاکستان تابندہ رہے۔

Comments

Popular posts from this blog

گجرات کے سیلاب میں سات شیر ہلاک

کیا آپ جانتے ہیں کہ قائد اعظم کے بیٹی دینا واڈیا اور پریٹی زنٹا کے درمیان کیا رشتہ ہے ؟ حیران کر دینے والی خبر آگئی