How Atom Bomb works?

ایٹم بم کیسے بنتا ہے؟

(Ishtiaq Ahmad, Khanewal)



تحریرو تخریج: اشتیاق احمد منتظم و مہتمم ادارہ تحقیق و تخلیق 105/10-R تحصیل جہانیاں ضلع خانیوال پنجاب پاکستان




جوہری بم دوسری جنگِ عظیم میں دنیا کی تاریخ میں سب سے پہلے استعمال ہوا۔ انگریزی میں کافی فلموں میں یہ پھٹتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان میں چند ایک کے نام یہ ہیں۔Dr. Strangelove, The Day After, Testament, Fat Man and Little Boy, The Peacemaker, ہیں۔آئیے دیکھتے ہیں کہ اس قدر مہلک اور لا محدود تباہی کا باعث بننے والا ہتھیار کس طرح کام کرتا ہے؟ اس مضمون میں ہم آپ کو طبعیات کے وہ راز بتائیں گے جن سے یہ اس قدر طاقت ور بن جاتا ہے۔ اسے کیسے ڈیزائن کیا جاتا ہے اور پھٹنے کے بعد کیا ہوتا ہے؟ جوہری بم میں چند قوتوں کا عمل دخل ہوتا ہے؟ ان سب سوالوں کا اختصار کے ساتھ ہم جواب دینے کی کوشش کریں گے۔ ایٹم میں کچھ کمزور قوتیں ہوتی ہیں اور کچھ مضبوط۔ وہ قوتیں جو مرکزے(nucleous) کو مضبوطی سے قائم رکھتی ہیں، مضبوط قوتیں کہلاتی ہیں۔ ان کی وجہ سے مرکزے میں موجود ذرات (نیوٹران اور پروٹان) باہم مضبوطی سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسے ایٹم جو ناپائیدار یا تابکار ہوتے ہیں ان میں یہ قوتیں پائیدار یا غیر تابکار ایٹموں کی نسبت کمزور ہوتی ہیں۔

بنیادی طور پر ایٹم سے توانائی دو طریقوں سے خارج ہوتی ہے۔
1: مراکزئی انشقاق(nuclear fission): لفظ انشقاق کا مطلب شق ہونا یا ٹوٹنا ہے۔ قرآن میں سورہ انشقاق بھی موجود ہے۔ اس طریقے میں ایک نیوٹران قابلِ انشقاق ایٹم سے ٹکراتا ہے اور اسے پھاڑ کر دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ اس طریقے میں یورینیم-235 یا پلوٹونیم-239 استعمال ہوتا ہے۔
2۔مراکزئی انضمام(nuclear fusion):اس طریقے میں دو چھوٹے ایٹم مل کر ایک بڑا ایٹم بنا دیتے ہیں جس میں بہت زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے۔عموماً ہائیڈروجن کے دو ہم جاء (isotopes) ڈیوٹریم اور ٹریٹیم باہم مدغم ہو کر ایک بڑا مرکزہ ہیلیم بنا دیتے ہیں۔ سورج میں یہی عمل توانائی کی اس قدر کثیر مقدار کے اخراج کا باعث بنتا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ عملِ انضمام میں عملِ انشقاق کی نسبت زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے۔

ایٹم بم کے لیے بنیادی طور پر آپ کو دو چیزوں کی ضرورت ہو گی
1۔ قابلِ انشقاق (پھٹ جانے ولا )مادہ (fissionable material)۔اسے مادہء متفجّرہ بھی کہتے ہیں۔
2۔گھوڑا triggering device):جیسے بندوق کا گھوڑا۔
ایٹم بم کے بننے اور پھٹنے کے طریقہ کار سے پہلے زیادہ بہتر ہوگا کہ ہم آپ کو ایٹم کی چند خصوصیات بتا دیں۔ دراصل ایٹم ہمارے تصور سے بھی چھوٹا ہوتا ہے۔ اتنا چھوٹا کہ اس کا قطر تقریباً 10-8 سم ہوتا ہے۔ اس کے چھوٹے ہونے کا درست تصور قائم کرنے کے لیے ایک فٹ بال کی جسامت کو ذہن میں لائیے۔ایک فٹ بال تقریباً سات سینٹی میٹر قطر کا ہوتا ہے۔ اگر ایٹم فٹ بال کی جسامت جتنا ہو تو اصل فٹ 3044 میل اونچا ہو۔ 
ایٹم تین بنیادی ذروں سے مل کر بنا ہے۔ مرکزی حصے(مرکزہ) میں نیوٹران اور پروٹان ہوتے ہیں۔ پروٹان پر مثبت چارج اور نیوٹران تعدیلی ہوتا ہے۔ تیسرا ذرہ الیکٹران ہے جو مرکزے کے گرد گھومتا ہے جس پر منفی چارج ہوتا ہے۔ پروٹانوں کی تعداد الیکٹرانوں کے برابر ہوتی ہے۔ اس لیے عام حالت میں ایٹم الیکٹرانوں کے منفی اور پروٹانوں کے مثبت چارج کے برابر اور مخالف ہونے کی وجہ سے تعدیلی ہوتا ہے۔ ایٹموں میں ذرات کی تبدیلی سے ان کی خصوصیات میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ کسی ایٹم میں پروٹانوں کی تعداد ایٹمی نمبر (atomic number) کہلاتی ہے اور ایٹم کے مرکزے میں پروٹانوں اور نیوٹرانوں کے مجموعے کو تول نمبر(mass number)کہتے ہیں۔ زمین پر کچھ عناصر عام ہیں جن میں ہائیڈروجن، کاربن، آکسیجن وغیرہ ہیں۔ اب تک سو سے زائد عناصر دریافت ہو چکے ہیں۔ اصل موضوع کو چھیڑنے سے پہلے ایک اصطلاح اور سمجھ لیجئے۔ یہ ہے ہم جاء(isotopes)کی اصطلاح ہے جس کا مطلب ایک ہی جگہ سے نکلنے والے ہے۔ ہم جاء کسی عنصر کے ایسے ایٹم ہوتے ہیں جن کا ایٹمی نمبر (پروٹانوں کی تعداد) برابر ہو مگر تول نمبر(پروٹانوں اور نیوٹرانوں کا مجموعہ)مختلف ہو۔ مثلاً یورینیم کے تین ہم جاء ہیں جو U238 92، U23592 92U233 ہیں۔ تینوں ہیں تو یورینیم ہی مگر ان میں ایٹمی نمبر(یعنی پروٹانوں کی تعداد) تو ایک جیسی ہے مگر تول نمبر(پروٹانوں اور نیوٹرانوں کا مجموعہ) مختلف ہے۔ تینوں ہم جاؤں میں یہ فرق نیوٹرانوں کی تعداد مختلف ہونے کی وجہ سے ہے۔

آئیے اس بنیادی بحث کو یہیں سمیٹتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ اتنے چھوٹے ذرّے سے اتنی توانائی کیسے خارج ہوتی ہے جو اس قدر تباہی و بربادی پر منتج ہوتی ہے۔ اس بات کو ہم مشہور سائنس دان آئن سٹائن کی مساوات کے ذریعے سمجھتے ہیں جو کہ E = mc2 ہے۔ یہاں E (energy) توانائی ہے ۔ m ایٹم کا تول ہے اور c روشنی کی رفتار ہے جو تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ تفصیلات میں جائے بغیر اس مساوات کا مطلب یہ ہے کہ مادہ توانائی میں تبدیل ہو سکتا ہے اور توانائی مادے میں۔ اس کو آسان فہم انداز میں اس طرح سمجھیے کہ مادے کی ایک مناسب سی مقدار کو اگر روشنی کی رفتار سے ضرب دیں تو جواب بہت زیادہ آئے گا جو کہ توانائی کی مقدار کا تعین کرے گا۔ مساوات میں دیکھیں کہ m اور c کا مربع آپس میں ضرب کھا رہے ہیں۔ حالانکہ ایٹم بہت چھوٹا ہوتا ہے مگر جب اس میں موجود مادے کی قلیل سی مقدار روشنی کی رفتار کے مربع سے ضرب کھاتی ہے تو بہت زیادہ توانائی کی مقدار بن جاتی ہے جو خارج ہوتی ہے۔ آپ اس کو یوں سمجھیں کہ بہت ہی چھوٹی چیز جب روشنی کی رفتار سے چلتی ہے تو توانائی میں بدل جاتی ہے۔

ایٹم بم کے لیے عمومی طور پر استعمال ہونے والی دھات یورینیم ہے۔ اس کا ایٹمی وزن کافی زیادہ ہوتا ہے یعنی اس کا ایٹم دوسرے قدرتی طور پر پائے جانے والے ایٹموں سے نسبتاً کافی بڑا ہوتا ہے اور اس کے مرکزے میں ذرات کی تعداد بھی کافی زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے مرکزے میں ذرات کی صورت میں موجود اضافی مادہ ہی اس میں سے توانائی کے اخراج کا سبب بنتا ہے۔اگر آپ 7 کلوگرام یورینیم کو روشنی کی رفتار کے مربع (c2) سے ضرب دیں تو 2.1بلین جول توانائی خارج ہوتی ہے۔ آئیے تھوڑا سا موازنہ کرتے ہیں کہ 60 واٹ کا بلب ایک سیکنڈ میں 60 جول توانائی خرچ کرتا ہے۔ آپ اندازہ لگائیے کہ ایک ڈیڑھ پاؤ بلند درجے کی افزودہ یورینیم سے ایک لاکھ گیلن پٹرول کے برابر توانائی حاصل ہوتی ہے۔ اتنے گیلن پٹرول ایسے 5 کمروں میں سماتے ہیں جن کی لمبائی، چوڑائی اور اونچائی 50،50 فٹ ہو۔ اس سے آپ کو ایک گیند جتنے یورینیم -235 کے افزودہ مادے میں موجود توانائی کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔

آئیے بات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے چند ضروری عوامل اور اصطلاحات کا مطالعہ کرتے ہیں۔
تاب کار زوال: تاب کا مطلب روشنی ہے۔ یعنی شعاعیں نکلنے کی وجہ سے تاب کار مادے کی مقدار میں کمی واقع ہونا۔ اس عمل میں تاب کار ایٹم کے مرکزے میں موجود ذرات اتنی تیز رفتاری سے نکلتے ہیں کہ یہ ذرات شعاعوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ تاب کار زوال تین قسم کا ہوتا ہے۔

الفا زوال: تابکار ایٹم کے مرکزے میں سے دو پروٹان اور دو نیوٹران باہم جڑے ہوئے نکلتے ہیں۔ (دو پروٹان اور دو نیوٹران جڑ کر ہیلئم بن جاتے ہیں)۔ با الفاظِ دیگر الفا زوال میں ایٹم کے مرکزے سے ہیلئم کے ذرے نکلتے ہیں۔

بیٹا زوال: بیٹا ذرات الیکٹرانوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور الیکٹران تو مرکزے کے اندر سرے سے موجود ہی نہیں ہوتے۔ تو پھر الیکٹران کے اخراج کا کیا معنی؟ دراصل مرکزے کے اندر موجود نیوٹران بذاتِ خود مثبت اور منفی چارجوں کا مجموعہ ہوتا ہے مگر یہ دونوں قسم کے چارج برابر تعداد میں ہوتے ہیں۔یہ چارج الیکٹرانوں اور پازیٹرانوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔ یہ دونوں ذرے مقدار میں برابر مگر چارج میں مخالف ہوتے ہیں۔ نیوٹران کے یہ مخالف ساختی اجزاء عام حالت میں ایک دوسرے کے اثر کو زائل کیے رکھتے ہیں جس سے نیوٹران تعدیلی رہتا ہے۔ جب اس میں سے ایک الیکٹران نکلتا ہے تو اس میں ایک اکائی منفی چارج کی کمی آ جاتی ہے اور ایک اکائی مثبت چارج کا اضافہ ہو جاتا ہے جس سےایک نیوٹران ایک پروٹان میں بدل جاتا ہے۔ اس طرح بیٹا زوال میں نیوٹران پروٹان میں بدل کر الیکٹران یعنی بیٹا ذرات خارج کرتا ہے۔ اس عمل کے ساتھ ساتھ پروٹان بھی ایک پازیٹران خارج کر کے نیوٹران میں بدل جاتا ہے۔ پازیٹران پر مشتمل شعاعیں مثبت شعاعیں کہلاتی ہیں۔یہ بھی بیٹا شعاعوں کے ساتھ خارج ہوتی ہیں۔

گیما زوال: گیما زوال میں تابکار ایٹم کے مرکزے سے برقی مقناطیسی شعاعیں بھی خارج ہوتی ہیں جب ایک ایٹم ٹوٹ کر دو حصوں میں بٹ جاتا ہے اور ساتھ ہی دو یا تین نیوٹران خارج ہوتے ہیں۔ یہ نیوٹران بھی مرکزے سے تیز رفتار شعاعوں کی صورت میں نکلتے ہیں۔ ان کی تفصیل خاصی لمبی ہے۔ ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ یہاں ہم ایٹم بم کے سب سے اہم عمل جوہری انشقاق کے بارے ذرا تفصیل سے بیان کریں گے۔

جوہری انشقاق:ہم یورینیم-235 کو ایٹم بم کے ایندھن اور جوہری بھٹی(nuclear reactor) میں استعمال ہونے والے ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ دراصل یورینیم قدرتی طور پر پائے جانے والے عناصر میں سے سب سے بھاری ہوتا ہے۔ اس کے دو ہم جاء(isotopes) ہوتے ہیں۔ ایک یورینیم-235 اور دوسرا یورینیم-238۔ یورینیم-235 میں یہ اضافی خوبی ہے کہ یہ انشقاق کے زنجیری عمل کے لیے یورینیم-238 سے کہیں زیادہ موزوں ہوتا ہے۔ اگر اس کے مرکزے پر ایک نیوٹران آکر ٹکرائے تو یہ اس کو جذب کر لیتا ہے اور خود ٹوٹ کر دو حصوں میں بٹ جاتا ہے اور دو یا تین نیوٹران خارج ہوتے ہیں۔ دو نئے بننے والے چھوٹے ایٹم ساتھ ہی گیما شعاعیں خارج کرتے ہیں کیونکہ ان کی نئی حالت وجود میں آئی ہوتی ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ ایٹم جب مشتعل/پر جوش یا برانگیختہ حالت حالت سے معتدل حالت میں آتا ہے تو شعاعیں خارج کرتا ہے۔ اس ضمن میں دو باتیں بڑی دلچسپ ہیں جو قابلِ ذکر ہیں۔ جوہری بم میں ایک ایٹم ٹوٹنے سے جو دو نیوٹران نکلتے ہیں وہ اگلے دو ایٹموں کو توڑتے ہیں اور ساتھ ہی دونوں سے چار نیوٹران نکلتے ہیں۔ یہ چار نیوٹران پھر مزید چار ایٹموں کو توڑتے ہیں تو ان چاروں میں سے آٹھ نیوٹران نکلتے ہیں جو آٹھ ایٹموں کو توڑتے ہیں اور ساتھ ہی سولہ نیوٹران نکلتے ہیں۔آپ نے سکول کے بچوں کے قطار میں کھڑے سائیکل گرتے ہوئے ضرور دیکھے ہو نگے جب ایک سائیکل گرتا ہے تو ساتھ ہی باری باری سب سائیکل گر جاتے ہیں۔ اسی طرح یورینیم کے مادے میں جب ایک نیوٹران گھستا ہے اور ایک ایٹم کو توڑتا ہے تو اس میں سے نکلنے والے نیوٹرانوں سے باقی ایٹموں کی تخریب شروع ہو جاتی ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ پورے مادے کے ٹوٹنے کا عمل ایک پیکو سیکنڈ میں مکمل ہو جاتا ہے یعنی 0٫000000000001سیکنڈ میں یہ عمل مکمل ہو جاتا ہے۔ جوہری بم میں استعمال ہونے والا یورینیم کم از کم 90 فیصد افزودہ ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یورینیم کے مادے میں 90 فیصد ذرات یورینیم-235 کے ہوں اور باقی دس فیصد یورینیم-238 کے۔

فاصل تول/حدِ مقدار(critical mass):انشقاقی مادے کی فاصل مقدار وہ کم سے کم مقدار ہوتی ہے جو عملِ انشقاق برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ ایٹم بم میں انشقاقی مادے کو دو یا دو سے زائد ذیلی فاصل مقداروں(sub critical masses)کی صورت میں رکھتے ہیں تاکہ انشقاقی مادہ پھٹ نہ جائے۔ بالکل ایسے ہی جیسے تربوز کی دو پھانکیں کر دی جائیں۔ دونوں مل کر فاصل مقدار سے بڑھ جائیں مگر الگ الگ فاصل مقدار سے کم رہیں۔ ان دو فاصل مقداروں کو جب تیزی سے باہم ملا کر یک جان کیا جاتا ہے تو مادے کی مقدار فاصل مقدار سے بڑھ کر بالائے فاصل(super critical)مقدار بن جاتی ہے اور اگر ساتھ ہی نیوٹران اس مقدار سے ٹکرا جائے تو انشقاقی زنجیری عمل شروع ہو جاتا ہے اور آنِ واحد میں سارا مادہ پھٹ کر ایٹم بم پھٹنے کا عمل مکمل ہو جاتا ہے۔ ایٹم بم بنانے میں اصل مسئلہ ان دو ذیلی فاصل مقداروں کو قریب لانا اور یک جان بنانا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے دو تکنیکیں استعمال کی جاتی ہیں۔

1۔بندوقی بھڑکاؤ کا طریقہ:بالائے فاصل مقدار میں نیوٹران جنریٹر کے ذریعے نیوٹران پیدا کر کے داخل کیے جاتے ہیں۔ یہ جنریٹر پلونیم اور بریلیم کی دو سِلوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کے درمیان میں انشقاقی مادے کی ایک چیپی نما تہہ ہوتی ہے۔ جب دو ذیلی فاصل مقداریں(sub-critical masses) قریب لائی جاتی ہیں تو عین اسی وقت پلونیم کی سِل سے الفا ذرات نکلتے ہیں

یہ الفا ذرات پھر بریلیم-9 سے ٹکراتے ہیں جس سے بریلیم-8بنتا ہے اور ساتھ ہی آزاد نیوٹران پیدا ہوتے ہیں۔ یہی نیوٹران عملِ انشقاق(fission reaction) شروع کرتے ہیں۔ آخر کار عملِ انشقاق ایک کثیف قابلِ انشقاق مادے میں محدود ہو جاتا ہے جو کہ عام طور پر یورینیم-238 کا بنا ہوتا ہے۔

2۔بندوقی انشقاقی طریقہ:یہ سادہ سا طریقہ ہے جس میں دو فاصل ذیلی مقداروں کو ایک دوسرے کے قریب لا کر یک جان بنایا جاتا ہے۔ جس طرح ہم تربوز کو چیک کرنے کے لیے اس میں سے ایک ٹکڑا کاٹتے ہیں(ٹاکی نکالتے ہیں) اور اس ٹکڑے کو دوبارہ اصل تربوز سے جوڑ دیتے ہیں۔ اسی طرح نیوٹران جنریٹر کے گرد یورینیم-235 کا ایک کرّہ بنایا جاتا ہے جس سے ایک ٹاکی نکال لی جاتی ہے۔ یہ ٹاکی یا یورینیم کا ٹکڑا بندوق کی گولی کی طرح کرّے کی طرف فائر کیا جاتا ہے جس سے یہ ٹکڑا تربوز کی ٹاکی کی طرح کرّے کی خالی جگہ کو بھر کر یک جان ہو جاتا ہے اور کرّے کی کل مقدار بالائے فاصل مقدار بن جاتی ہے ۔فائر کے ساتھ ہی نیوٹران جنریٹر چل پڑتا ہے۔ اس طرح سارے مادے میں انشقاقی عمل شروع ہو جاتا ہے۔ یورینیم -235 کی یہ گولی ایک بڑی نال(tube) کے ایک سرے پر ہوتی ہے جبکہ نیوٹران جنریٹر کے گرد بنا ہوا کرہ نال کے دوسرے سرے پر نصب ہوتا ہے۔ یورینیم کی گولی کے پیچھےTNT( ٹرائی نائتروٹائلن) کا بارود ہوتا ہے۔ جونہی بارود کو آگ لگتی ہے تو اس سے پیدا ہونے والی گیس سے گولی انتہائی سرعت کے ساتھ یورینیم کے کُرّے کی طرف چلتی ہے اور اس میں اپنی جگہ پر گھس کر کُرّے کو یک جان بنا دیتی ہے۔ بیچ میں رکھا ہوا نیوٹران جنریٹر چل پڑتا ہے۔ اس طرح ایٹم بم پھٹ جاتا ہے۔

یہاں پر ایک بات سوچنے کی ہے کہ جب یورینیم کی گولی تیزی سے یورینیم کے کُرّے سے ٹکراتی ہے تو بجائے یک جان ہونے کے ٹکرا کر واپس بھی آ سکتی ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مقناطیس کے دو قطب استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک قطب یورینیم کی گولی کے ساتھ ہوتا ہے اور دوسرا مخالف قطب کُرّے کے ساتھ۔ جونہی گولی کُرّے سے ٹکراتی ہے تو دونوں قطب ایک دوسرے کو کشش کرتے ہیں۔ اس طرح دونوں ٹکڑوں کے ٹکرا کر واپس جانے کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ یہ ہے ایٹم بم بننے کا مختصر عمل۔

Courtesy: Hamariweb

Comments

Popular posts from this blog

گجرات کے سیلاب میں سات شیر ہلاک

کیا آپ جانتے ہیں کہ قائد اعظم کے بیٹی دینا واڈیا اور پریٹی زنٹا کے درمیان کیا رشتہ ہے ؟ حیران کر دینے والی خبر آگئی